عنوان: نان نفقہ نہ دینے والے اور مار پیٹ کرنے والے شوہر سے علیحدہ رہائش اختیار کرنے کا حکم (18099-No)

سوال: ایک خاتون کا خاوند اس کو مارتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، نشہ بھی کرتا ہے اور دوسری عورتوں اور ماسیوں سے ناجائز تعلقات بھی ہیں، خاتون نے کئی بار اس سلوک کو درگزر کیا، لیکن اب اس نے مجبور ہو کر اپنے بھائی سے شکایت کی ہے، اس پر اس کے شوہر نے قرآن شریف اٹھا کر معافی مانگی اور آئندہ نہ کرنے کا وعدہ کیا، اس کے باوجود کچھ دنوں بعد پھر وہی حرکتیں شروع کردیں اور مار پیٹ بھی شروع کردی، اس خاتون نے دوبارہ بھائی کو سب کچھ بتایا اور کہا کہ اب مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے تو بھائی نے طلاق لینے سے منع کیا، جس پر بہن نے کہا کہ مجھے الگ گھر لے کر دے دو اور ایک بھائی مستقل میرے ساتھ وہاں رہے، اس خاتون کے خاندان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں کررہی ہے اور ایسا کرنے سے وہ گناہگار ہوگی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ شوہر نشہ اور دوسری عورتوں کے ساتھ اب بھی تعلق رکھا ہوا ہے اور یہ سب برداشت کرنے کے باوجود مجھے مارتا بھی ہے تو میں یہ ظلم کیسے برداشت کروں؟
براہ کرم آپ رہنمائی فرمادیں کہ کیا اگر وہ خاتون الگ گھر میں اپنے سگے بھائی کے ساتھ رہتی ہے اور شوہر کے ساتھ نہیں رہتی ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوگی؟
تنقیح:
محترم آپ کا سوال مبہم ہے، اس کی وضاحت فرمائیں کہ شوہر بیوی کو نان نفقہ دیتا ہے یا نہیں؟ نیز شوہر بیوی پر کس قدر ظلم کرتا ہے؟ کیا بیوی کو شوہر سے اپنی جان کی ہلاکت یا کسی عضو کے تلف ہونے یا شدید مار پیٹ کا خدشہ ہے؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح:
حضرت! نان نفقہ نہیں دیتا ہے، مار پیٹ اور ہاتھا پائی ہوتی رہتی ہے، گوکہ ابھی تک اعضاء تلف ہونے کی نوبت نہیں آئی، لیکن آتشی اسلحہ کی موجودگی بہر حال خطرے کا موجب ہے۔

جواب: واضح رہے کہ عورت کا یہ مطالبہ کرنا کہ مجھے الگ گھر لے کر دیا جائے، جس میں صرف اس کا بھائی اس کے ساتھ رہے گا اور کوئی نہیں ہوگا، یہ مطالبہ شریعت کے خلاف ہے، کیونکہ شرعاً عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا لازم ہے اور شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
تاہم شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے پاس رکھے اور اس پر ہر قسم کے ظلم و ستم سے پوری طرح اجتناب کرے اور قیامت کے دن اللہ کے حضور حساب و کتاب کا خوف رکھتے ہوئے بیوی کے تمام حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔
نیز شوہر کا اپنی بیوی کے علاوہ دیگر عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنا سخت حرام ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اس فعل سے دل کی ندامت کے ساتھ توبہ کرے اور آئندہ کے لیے ان کاموں سے پوری طرح اجتناب کرے۔
مزید یہ کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیلات اگر واقعتاً درست ہوں اور میاں بیوی کی نباہ کی کوئی صورت نہ بنتی ہو اور شوہر نان و نفقہ بھی نہ دیتا ہو تو بیوی کو چاہیے کہ پوری کوشش کر کے شوہر سے خلع لے کر خلاصی حاصل کرے، اگر شوہر اس کے لیے تیار نہ ہو اور نہ ہی عورت کے پاس نان نفقہ کا کوئی اور انتظام ہو، جس کی وجہ سے اسے سخت "ضرر" لاحق ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں بیوی نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کر کے مسلمان جج سے نکاح فسخ کرواسکتی ہے، جس کا طریقہ کار ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
سب سے پہلے عورت مسلمان جج کی عدالت میں نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر نکاح فسخ کرنے کا مقدمہ دائر کرے اور پھر گواہوں کے ذریعے شوہر سے اپنا نکاح اور باوجود وسعت کے شوہر کا نان نفقہ نہ دینا ثابت کرے، اس کے بعد جج شوہر کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کرے، اگر وہ عدالت میں آجاتا ہے تو جج اس سے کہے کہ یا تو اپنی بیوی کو نان نفقہ دو یا اسے طلاق یا خلع دو، ورنہ ہم تم دونوں کے درمیان تفریق کردیں گے، اب اگر شوہر نہ نان نفقہ دیتا ہے اور نہ ہی طلاق یا خلع دیتا ہے تو مسلمان جج ان کے درمیان تفریق کرادے، لیکن اگر بار بار نوٹس کے باجود شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو مسلمان جج بیوی کے گواہوں کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرکے تفریق کرادے، تفریق کے بعد عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (602/3، ط: الحلبي، بيروت)
(ولا يمنعها من ‌الخروج إلى ‌الوالدين) في كل ‌جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج فتح (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية، ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة، وإن أذن كانا عاصيين كما مر في باب المهر.
وفي رد المحتار تحته: (قوله على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من ‌الخروج إلى ‌الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار. اه فقوله هو المختار مقابله القول بالشهر في دخول المحارم كما أفاده في الدرر والفتح، نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي ‌يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من ‌الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي ‌يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة ‌الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر. اه وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر في البحر أنه الصحيح المفتى به من أنها تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه وبدونه.

الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي: (7045/9، ط: دار الفكر)
ثانيا رأي الجمهور: أجاز الأئمة الثلاثة التفريق لعدم الإنفاق لما يأتي:
١ - قوله تعالى: {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة:٢٣١/ ٢] وإمساك المرأة بدون إنفاق عليها إضرار بها. وقوله تعالى: {فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة:٢٢٩/ ٢] وليس من الإمساك بالمعروف أن يمتنع عن الإنفاق عليها.
٢ - قال أبو الزناد: سألت سعيد بن المسيب عن الرجل لا يجد ماينفق على امرأته، أيفرق بينهما؟ قال: نعم، قلت له: سنة؟ قال: سنة. وقول سعيد: سنة، يعني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٣ - كتب عمر رضي الله عنه إلى أمراء الأجناد، في رجال غابوا عن نسائهم، يأمرهم أن يأخذوهم أن ينفقوا أو يطلقوا، فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما مضى.
٤ - إن عدم الإنفاق أشد ضررا على المرأة من سبب العجز عن الاتصال الجنسي، فيكون لها الحق في طلب التفريق بسبب الإعسار أو العجز عن الإنفاق من باب أولى.
والراجح لدي رأي الجمهور لقوة أدلتهم، ودفعا للضرر عن المرأة، ولا ضرر ولا ضرار في الإسلام.

حیلہ ناجزہ: (ص: 72، ط: دار الاشاعت)

احسن الفتاوی: (411/5، ط: سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 317 Jul 05, 2024
nan nafqa na dene wale or maar peet karne wale shohar se alehda rehaish ikhtiar karne ka hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.