سوال:
مفتی صاحب! میری بیوی کو حمل کا تقریباً دوسرا مہینہ ہونے میں سات سے بارہ دن باقی تھے، لیکن ہم نے صحبت کرلی صرف چند سیکنڈ کے لئے میں نے عضو اس کی شرم گاہ میں رکھا اور نطفہ بہائے بغیر ہی نکال لیا اور اس وجہ سے حمل ضائع ہوگیا، اس صحبت کی میں نے اپنی بیوی سے اجازت لی تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اکیلا یا ہم دونوں میاں بیوی اس بچے کے قاتل ہیں؟ اگر ہم دونوں گناہگار ہیں تو ہم کس طرح توبہ کریں؟ مزید یہ کہ میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس کے لئے دعائے خیر کردیں۔ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ حاملہ بیوی سے ہمبستری (جماع) کرنا شرعاً جائز ہے، لہذا اگر حاملہ بیوی سے ہمبستری کرنے کی وجہ سے حمل ضائع ہوگیا تو گناہ نہیں ہوگا، البتہ اگر کوئی ماہر دیانتدار ڈاکٹر دورانِ حمل ہمبستری کرنے سے منع کرے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 223)
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ o
الدر المختار مع رد المحتار: (49/3، ط: دار الفکر)
"لئلايسقي ماءه زرع غيره إذ الشعر ينبت منه.
(قوله: إذ الشعر ينبت منه) المراد ازدياد نبات الشعر لا أصل نباته، ولذا قال في التبيين والكافي؛ لأن به يزداد سمعه وبصره حدة كما جاء في الخبر. اه.
و هذه حكمته، وإلا فالمراد المنع من الوطء لما في الفتح قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره» يعني إتيان الحبلى رواه أبو داود والترمذي وقال حديث حسن. اه. شرنبلالية."
التبيان في أقسام القرآن للامام ابن القیم: (ص: 355، ط: دار المعرفة)
لأن الوطء يزيد في خلقه الولد كما قال الامام أحمد الوطء يزيد في سمع الولد وبصره وهذا أرجح الأقوال ... فهذا دليل على أن وطء الحامل إذا وطئت كثيراً جاء الولد عبلا ممتلئاً وإذا هجر وطؤها جاء الولد هزيلاً ضعيفاً فهذه أسرار شرعية موافقة للأسرار الطبيعية مبنية عليها والله أعلم.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی