سوال:
محترم مفتی صاحب! مجھے امید ہے کہ یہ خط آپ کو بہترین صحت اور ایمان میں پائے گا۔ میں اپنی پیاری بیٹی فضا زاہد سے متعلق ایک انتہائی تشویشناک معاملے کے بارے میں چند سوالات آپ کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔
تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہمیں فرحان صدیقی کی طرف سے میری بیٹی کے لیے شادی کی تجویز موصول ہوئی۔ ہمارے دونوں خاندان کئی سالوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور ضروری تصدیق کے بعد ہم نے منگنی کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ باہمی طور پر طے پایا کہ رخصتی سے تین ماہ قبل نکاح ہوگا، کیونکہ دولہا اور دلہن دونوں نے رخصتی کے فوراً بعد عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔
بدقسمتی سے طے شدہ رخصتی سے صرف 20 دن پہلے جناب فرحان صدیق نے رشتہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور فضا کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس نے جو وجوہات فراہم کیں، وہ ہمارے لیے تسلی بخش نہیں تھیں۔ میری کوششوں کے باوجود کہ وہ اسے دوبارہ غور کرنے پر راضی کرے اور اسے اپنے فیصلے پر غور کرنے کے لیے مزید تین ماہ کا وقت دے، وہ طلاق کو آگے بڑھانے پر اصرار کررہا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر میں آپ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ شریعت کی روشنی میں درج ذیل امور میں رہنمائی فرمائیں:
1) جو منگنی اور نکاح ہو چکے ہیں، ان کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی خاص طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
2) رخصتی سے پہلے طلاق کی صورت میں شریعت کے تحت فریقین (دلہن اور دلہن) کے کیا حقوق اور ذمہ داریاں ہیں؟ کیا کوئی خاص مالی یا قانونی ذمہ داریاں ہیں، جن کو پورا کرنے کی ضرورت ہے؟
3) اس صورت حال میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی خاص اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ طلاق اسلامی اصولوں کے مطابق ہو؟
4) اس صورت حال میں ہمیں اپنی بیٹی فضا کے لیے جذباتی اور سماجی مضمرات کو کیسے حل کرنا چاہیے؟ کیا کوئی خاص دعا یا اعمال ہیں جو ہم اللہ کی رہنمائی اور مدد حاصل کرنے کے لیے کر سکتے ہیں؟
5) کیا طلاق واقع ہونے کی صورت میں دلہن حق مہر کی رقم دولہے کو واپس کرنے کی ذمہ دار ہوگی؟
6) کیا دلہن پر نکاح کے بعد دلہے کے تمام تحائف جیسے: کپڑے، میک اپ، زیورات، بری وغیرہ واپس کرنے کی ذمہ دار ہوگی؟
7) رخصتی کی اچانک منسوخی سے ہونے والے معاشی نقصانات کو کون برداشت کرے گا؟ جس میں ادائیگی اور بارات کے انتظامات، عشائیہ، فرنیچر، جہیز کے انتظامات، کارڈ پرنٹنگ وغیرہ میں لگائی گئی کوششیں شامل ہیں۔
ہم اس مشکل وقت میں ان معاملات پر آپ کی رہنمائی کی تعریف کریں گے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تمام اقدامات اسلامی اصولوں اور اقدار کے مطابق ہوں۔
جواب: (1 تا 4) پوچھی گئی صورت میں اگر لڑکا بلا کسی شرعی وجہ کے طلاق دینے پر اصرار کر رہا ہے تو اولاً دونوں خاندان کے معتبر لوگوں کے ذریعے اس کو مزید سمجھایا جائے کہ بغیر کسی وجہ کے طلاق دینا ایک عظیم نعمت نکاح کی ناشکری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہاں طلاق جیسی انتہائی ناپسندیدہ کام کا مرتکب ہونا ہے، (اس دوران آپ لوگ رجوع الی اللہ، دعا اور کثرت کے ساتھ استغفار اور صدقہ دینے کا اہتمام کریں، ان شاء اللہ ان اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کے فیصلے نصیب ہوں گے) سمجھانے کے باوجود اگر پھر بھی وہ طلاق دینے پر اصرار کرتا رہے تو اس صورت میں طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ بیوی کو ایک طلاق دے کر اپنے رشتہ ازدواج سے آزاد کر دے۔
(5) طلاق دینے کی صورت میں اگر رخصتی سے قبل میاں بیوی کے درمیان خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) نہیں پائی گئی ہے تو شوہر پر آدھے مہر کی ادائیگی لازم ہوگی، بصورتِ دیگر شوہر پر مکمل مہر ادا کرنا لازم ہوگا۔
(6) دلہے کی طرف سے دلہن کو ملنے والے مذکورہ تحائف اگر اس بات کی صراحت کے ساتھ دیے ہوں کہ یہ اسی کی ملکیت ہیں تو یہ تحائف دلہن کی ملکیت ہوں گے، ایسی صورت میں دلہن پر ان کی واپسی لازم نہیں ہوگی، اور اگر یہ تحائف دلہن کو دیتے وقت دلہے کی طرف سے اس بات کی صراحت کی گئی ہو کہ یہ تحائف دلہن کو مالکانہ طور پر نہیں، بلکہ بطورِ عاریت (صرف استعمال کے لیے ) دیے جارہے ہیں تو اس صورت میں یہ تحائف دلہے کی ملکیت ہوں گے جو اس کو واپس کرنے لازم ہوں گے، لیکن اگر تحائف دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہو تو ایسی صورت میں دلہے کی برادری اور خاندان کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر اس کی برادری میں دلہن کو سسرال کی طرف سے اس طرح کے تحائف بطور ملکیت دیے جاتے ہیں تو اسی پر عمل کیا جائے گا اور وہ تحائف دلہن کی ملکیت ہوں گے، اور اگر لڑکے کی برادری اور خاندان میں دلہن کو زیورات وغیرہ بطور عاریت (صرف استعمال کے لیے) دیے جاتے ہیں تو اسی پر عمل کیا جائے گا، یعنی سسرال والے اگر چاہیں تو لڑکی سے زیورات واپس لے سکتے ہیں، البتہ اگر لڑکے کی برادری کا کوئی عرف نہیں ہے اور زیورات دیتے وقت کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہو تو ایسی صورت میں وہ زیورات اس لڑکی کی ملکیت ہوں گے۔
(7) شادی کے موقع پر مذکورہ خرچے چونکہ لڑکا اور لڑکی والے اپنے طور پر کرتے ہیں، لہذا رخصتی کی منسوخی کی وجہ سے اس طرح کے معاشی نقصان کا کوئی بھی فریق ایک دوسرے کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 35)
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا o
و قوله تعالی: (البقرة، الایة: 237)
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ...الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (103/3، ط: دار الفكر)
و يتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة أو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثا.
رد المحتار: (153/3، ط: دار الفکر)
ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا۔
و فيه أيضا: (696/5، ط: دار الفکر)
(قوله: وكذا زفاف البنت) أي على هذا التفضيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي.
أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية.
وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اه.
الھندیة: (327/1، ط: دار الفکر)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب.
کفایت المفتی: (102/6، ط: دار الاشاعت)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی