سوال:
السلام علیکم،
اگر دفتر سے ملنے والی میڈیکل کی سہولت انشورنس کمپنی کے ذریعے ہو اور اسکا پریمیم کمپنی خود ادا کراتی ہو، likn ہر مہینے اس پریمیم کے دس فیصد کے بقدر کٹوتی ملازم کی تنخواہ سے ہوتی ہو تو کیا ایسی میڈیکل کی سہولت سے مستفید ہونا جائز ہے؟
جواب: اپنے ملازمین کے علاج کے لیے کمپنی کے میڈیکل انشورنس کی عموماً دو صورتیں ہوتی ہیں:
(1) اختیاری (2) جبری
اختیاری میڈیکل انشورنس کا حکم یہ ہے کہ جتنی رقم جمع کروائی ہے، اتنی ہی لے سکتے ہیں، اس سے زائد رقم لینا جائز نہیں ہے۔
البتہ جبری کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
(1 ) کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ محکمہ کو انشورنس کے معاملے کا گناہ ہوگا، لیکن ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ علاج کرائے، کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری محکمہ پر ہے، پهر وہ بلوں کی ادائیگی کے لیے جو طریق کار اختیار کرے، اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔
(2 ) دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات ان ملازمین کی کمپنی سے وصول کرتے ہیں اور پھر کمپنی اس علاج کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کرلیتی ہے، یہ صورت بهی محکمہ کے لیے جائز نہیں ہے، مگر ملازم کے لیےاس طرح علاج کروانا جائز ہے۔
(3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ ملازم کلینک یا ہسپتال کی فیس خود ادا کرے، لیکن محکمہ نے اسے پابند کردیا ہو کہ وہ بل کی رقم خود جاکر انشورنس کمپنی سے وصول کرے، اس صورت میں چونکہ ملازم کو انشورنس کمپنی سے براہ راست رقم مل رہی ہے، جس کا زیادہ تر روپیہ حرام ہے، اس لیے ملازم کے لیے اس کا لینا جائز نہیں، البتہ اگر ملازم کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے محکمہ نے انشورنس کمپنی کو جتنا پریمیم ادا کیا ہے، ابهی تک اتنی رقم اس کے ملازم نے وصول نہیں کی، تو جتنا پریمیم (اقساط) انشورنس کمپنی کے پاس ہو تو اس حد تک رقم وصول کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالی: (المائدۃ، الایة: 90)
یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔
مصنف ابن ابی شیبہ: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحۃ، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
کذا فی تبویب فتاویٰ دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 490/69
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی