سوال:
میں شادی شدہ ہوں اور یہ میری شادی کا پانچواں سال ہے۔ میرے چار بچے ہیں (سب سے بڑا 4 سال اور 11 ماہ کا ہے اور سب سے چھوٹا 8 ماہ کا ہے)۔ اور اب ہم پانچویں بچے کے متوقع ہیں (15 دن کا حمل ہے)۔ میری عمر 26 سال ہے، اور اس دوران میری ذہنی صحت پر بہت اثر پڑا ہے جو میرے دوسرے بچوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، کیونکہ میرے پاس ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا اور میں ان سے جلدی جھنجھلا جاتی ہوں۔
ہم نے پوری کوشش کی کہ حمل سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس حمل کو ضائع کر سکتے ہیں؟ کیا میری اس حالت میں حمل ضائع کرنا (اسقاطِ حمل) جائز ہے؟
مجھے یقین ہے کہ اللہ نے ہمیں چُنا ہے تو وہی مجھے طاقت اور صبر دے گا، لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال میرے ذہنی سکون پر بہت اثر ڈال رہی ہے۔ میں اکثر ڈپریشن میں رہتی ہوں، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر حمل ٹھہرنے کی وجہ سے خاتون یا اس کے بچے کی جان کو شدید خطرہ ہو یا ماں کے کسی عضو کے تلف ہو جانے کا یقین یا غالب گمان ہو، یا عورت اپنی بیماری کی وجہ سے فی الحال حمل کی متحمل نہیں ہوسکتی ہو، یا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے عورت کا دودھ بند ہو جاتا ہو جس سے زیرِ کفالت بچے کو نقصان پہنچ رہا ہو، اور کوئی مسلمان دیندار ماہر ڈاکٹر بھی اس کی تصدیق کردے تو ایسی صورت میں حمل میں جان پڑ جانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) حمل ساقط (Abortion) کروانے کی گنجائش ہے، البتہ صرف ذہنی صحت متاثر ہونے کے اندیشہ اور بچوں کی پرورش میں اضافی مشقت کی وجہ سے اساقطِ حمل (Abortion) کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو احوال بیان کیے ہیں، وہ اتنے شدید نوعیت کے نہیں ہیں کہ اس کی بنیاد پر آپ کو اسقاط حمل کی اجازت دی جائے، ہاں! اگر واقعی آپ کی ذہنی صحت شدید متاثر ہو رہی ہو تو اس صورت میں آپ ماہر دیندار ڈاکٹر سے مشورہ کرسکتی ہیں۔
لہذا اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جس کے قبضہ قدرت میں تمام نفع اور نقصان ہے، حمل کو برقرار رکھیں، جب اللہ جل شانہ اولاد سے نوازے گا تو اس کے سنھبالنے کی طاقت بھی آپ کو عطا کردے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والا بچہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں نفع مند ثابت ہو۔
اللہ پاک آپ کے تمام کاموں میں آسانی اور عافیت والا معاملہ فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (429/6، ط: دار الفکر)
"و يكره أن تسقى لإسقاط حملها ... وجاز لعذر حيث لايتصور."
(قوله: و يكره إلخ) أي مطلقًا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله: وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل و انقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا: يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله: حيث لايتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك.‘‘
الهندية: (356/5، ط: دار الفکر)
’’رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لايسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز ... وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. و لايجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان. والله أعلم‘‘.
الموسوعة الفقهیة الکویتیة: (285/30، ط: دار القرآن)
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی