resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عورت کا مزید حمل ٹہرنے سے محفوظ رہنے لیے فالوپین ٹیوب (fallopian tube) نکلوانا

(33560-No)

سوال: میں ایک طبّی عمل کے بارے میں اسلامی رہنمائی چاہتی ہوں، میری چار بچے ہیں، مزید حمل میرے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر انتہائی مشکل ہوگا۔ مجھے زچگی کے بعد کے ڈپریشن (Postpartum Depression) کی بھی تاریخ رہی ہے، اور میرے ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ اگر میری فالُوپین ٹیوب نکال دی جائے تو آئندہ حمل سے بچا جا سکتا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ میری اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا اس قسم کا مستقل مانع حمل طریقہ اسلام میں جائز ہے؟

جواب: واضح رہے کہ بلا عذر مستقل ایسی تدبیر اختیار کرنا جس سے قوّت تولید بالکلیہ ختم ہو جائے اور مزید حمل نہ ٹہرسکے، جیسے: فالوپین ٹیوب (fallopian tube) نکالنا وغیرہ حرام ہے، کیونکہ اس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی جسمانی اعضاء کی فطری اور تخلیقی صلاحیت کو بالکلیہ ختم کرنا ہے جو کہ حرام اور ممنوع ہے۔
ہاں! اگر واقعی کوئی شرعی عذر ہو تو ایسی صورتوں میں بقدرِ ضرورت ایسی مانع حمل تدابیر اپنانے کی گنجائش ہے، جو وقتی ہوں اور جب چاہیں انہیں ترک کرکے توالد اور تناسل کا سلسلہ جاری کیا جا سکتا ہو۔
تاہم اگر کوئی عارضی تدبیر کارگر نہ ہوسکے، اور مستند گائنا کالوجسٹ (ماہرِ امراضِ نسواں) ڈاکٹر کے ظنِ غالب کے مطابق حمل ٹہرنے کی وجہ سے مریضہ کی جان کو شدید خطرہ یا کسی موذی مرض (جیسے کینسر) کے لاحق ہونے کا اندیشہ ہو اور اس سے بچاؤ کے لیے فالوپین ٹیوب نکلوانا ناگزیر ہو تو ایسی صورت میں فالوپین ٹیوب نکلوانے کی شرعاً گنجائش ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح الباري لابن حجر: (کتاب النکاح، 9/ 111، ط: السلفية)
وينبغي أن يحمل على دواء يسكن الشهوة دون ما يقطعها أصالة، لأنه قد يقدر بعد فيندم لفوات ذلك في حقه ، وقد صرح الشافعية بأنه لا يكسرها بالكافور ونحوه، والحجة فيه أنهم اتفقوا على منع الجب والخصاه فيلحق بذلك ما في معناه من ‌التداوي ‌بالقطع ‌أصلا.

وفیه ایضاً: (باب المتنمصات، 10/ 377، ط: السلفية)
قال الطبري: ‌ لا ‌يجوز ‌للمرأة ‌تغيير ‌شيء ‌من ‌خلقتها التي خلقها الله عليها بزيادة أو نقص.

فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الأولى: (19/ 318، الناشر: رئاسة إدارة البحوث العلمية والإفتاء - الإدارة العامة للطبع - الرياض)
الأصل في تحديد النسل وتنظيمه عدم الجواز؛ لمخالفته لما جاء في الشريعة الإسلامية من النهي عن التبتل المراد به: الانقطاع عن النكاح والتشديد في ذلك، والأمر بتزوج الولود، فيكون تناول حبوب منع الحمل أو غيرها لمنع الحمل غير جائز، إلا في حالات ضرورية نادرة، كأن يحدث الحمل للمرأة أتعابا وأمراضا فوق ما يلحق الحوامل عادة من أمراض الحمل والولادة- فعند ذلك يجوز تناول ما يمنع الحمل تداويا، لا فرارا من النسل؛ لقول الله -سبحانه-: {فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} وقوله: {لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا}.

الفقه الاسلامی و ادلته: (‌‌‌‌المبحث الرابع، العزل، 2644/4، ط: دار الفکر)
يجوز استعمال موانع الحمل الحديثة كالحبوب وغيرها لفترة مؤقتة، دون أن يترتب عليه استئصال إمكان الحمل، وصلاحية الإنجاب، قال الزركشي: يجوز استعمال الدواء لمنع الحبل في وقت دون وقت كالعزل، ولا يجوز التداوي لمنع الحبل بالكلية. أو ربط عروق المبايض إذا ترتب عليه امتناع الحمل في المستقبل، والعبرة في ذلك لغلبة الظن ، أي احتمال مافوق ٥٠%. وكذلك الحكم في تعقيم الرجل.

رد المحتار: (176/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اه. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اه. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل.

(کذا فی فتاوی محمودیہ: باب التداوی والمعالجہ، 290/18، ط: ادارة الفاروق)

(کذا فی فتاوی رحیمیہ: کتاب الحظر والاباحة، فعل جائز و ناجائز، 182/10، ط: دارالاشاعت)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

(مزید سوالات وجوابات کےلیے ملاحظہ فرمائیں)
https://AlikhlasOnline.com

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment