resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: چھ ماہ کے حمل کے اسقاط کا حکم (31160-No)

سوال: مفتی صاحب! حمل کا چھٹا مہینہ ہے اور ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ بچے کا دماغ ٹھیک سے نہیں بنا ہے، پھیپڑوں میں پانی ہے، پیدائش کے بعد بھی بچنے کا امکان نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں حمل ساقط کروانا جائز ہے؟

جواب: واضح رہے کہ عام طور پر چار مہینے میں حمل میں روح پڑ جاتی ہے اور روح پڑجانے کے بعد کسی حال میں بھی اسقاط کرانا جائز نہیں ہے۔ سوال میں ذکرکردہ صورت میں چونکہ حمل کا چھٹا مہینہ چل رہا ہے، لہٰذا ذکر کردہ بیماری کی وجہ سے اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (الإسراء، الآية: 31)
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطأ كَبِيرًا •

المحيط البرهاني: (374/5، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
وبعدما وصل الماء إلى رحمها إذا أرادت الإلقاء هل يباح لها ذلك: إن أرادت ذلك بعد مضي مدة ينفخ فيه الروح، فليس لها ذلك؛ لأنها تصير قاتلة؛ فإنه اعتبر هنا على غلبة الظاهر، فلا يحل لها كما بعد الانفصال، وإن أرادت الإلقاء قبل مضي مدة ينفخ فيه الروح؛ اختلف المشايخ فيه؛ قال بعضهم: يحل لها ذلك؛ لأن قبل مضي المدة التي ينفخ فيه الروح لا حكم لها، فهذا والعزل سواء.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment