عنوان: دکاندار کا استعمال شدہ موبائل کو ڈبہ پیک اور نیا موبائل کہہ کر فروخت کرنا اور ایسے دکاندار کو موبائل بیچنے کا حکم (19151-No)

سوال: ایک شخص کا موبائل خرید و فروخت کا کاروبار ہے۔ یہ شخص زیادہ تر وہ موبائل خریدتا ہے جو بہت صاف ستھری حالت میں اور بہت ہی کم دن استعمال ہوا ہو، پھر وہ شخص جن دکان دار حضرات کو وہ موبائل فروخت کرتا ہے، ان میں سے زیادہ تر دکان دار اس موبائل کو دوبارہ ڈبہ پیک کر کے گاہک کو نیا ڈبہ پیک بول کر فروخت کرتے ہیں جو کہ جھوٹ ہوتا ہے۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا جس شخص نے استعمال شدہ کی قیمت میں دکان دار کو فروخت کیا اور جس دکان دار نے جھوٹ بول کر بیچا تو کیا اس گناہ میں پہلے بیچنے والا بھی گناہ میں شامل ہو گا یا پھر جس دکان دار نے دوبارہ پیک کیا اور جھوٹ بول کر گاہک کو بیچا، صرف وہی اکیلا اس میں گناہ گار ہوگا؟ جواب دے کر رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

جواب: استعمال شدہ موبائل کے بارے میں دکاندار کو واضح طور پر بتا کر فروخت کرنا شرعاً درست ہے، لیکن دکاندار کا استعمال شدہ موبائل کو ڈبہ میں ڈال کے اسے ڈبہ پیک/ غیر استعمال شدہ اور نیا موبائل کہہ کر فروخت کرنا جھوٹ اور غلط بیانی ہے جو کہ جائز نہیں ہے، تاہم جھوٹ اور غلط بیانی کا عمل چونکہ دکاندار کا ہے، اس لئے اگر بیچنے والے کی اس ناجائز عمل میں معاونت مقصود نہ ہو تو اس کا گناہ صرف دکاندار کو ہوگا۔
البتہ اگر موبائل بیچنے والے کو یقینی طور پر معلوم ہو، مثلاً: دکاندار نے صراحت کردی ہو یا وہ اسی کام میں معروف ہو کہ وہ استعمال شدہ موبائل خرید کر اسے ڈبہ پیک اور نیا موبائل کہہ کر جھوٹ اور دھوکہ دہی سے فروخت کرتا ہے تو ایسی مخصوص صورت میں یہ جاننے کے باوجود اسے موبائل فروخت کرنا اس کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کے کاروبار میں ایک طرح سے معاونت ہے، اس لئے اس سے اجتناب لازم ہے، تاکہ ناجائز کام میں معاونت (تعاون علی الاثم) کا گناہ لازم نہ آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 2)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o

صحیح مسلم: (کتاب الایمان، رقم الحدیث: 248)
عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر على صبرة طعام فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: " ما هذا يا صاحب الطعام؟ "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: " افلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش، فليس مني"

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1972، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنع الملَك میلاً من نتن ما جاء به

المنهاج شرح صحيح مسلم: (69/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
وَأَمَّا الْكَذِبُ فَهُوَ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِينَ مِنْ أَصْحَابِنَا الْإِخْبَارُ عَنِ الشَّيْءِ عَلَى خِلَافِ مَا هُوَ عَمْدًا كَانَ أَوْ سَهْوًا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ

الدر المختار مع الرد: (باب خيار العيب، 47/5، ط: دار الفكر)
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام (قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته

الهدایة: (فصل فیما یکرہ، 51/3، ط: إدارۃ المعارف دیوبند)
کل ذٰلك یکره ولا یفسد به البیع؛ لأن الفساد في معنی خارج زائد لا في صلب العقد ولا في شرائط الصحة۔

فقه البیوع: (192/1، ط: معارف القرآن)
الاعانة علی المعصیة حرام مطلقا بنص القرآن اعنی قوله تعالی: ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (المائدۃ:2) وقوله تعالی: فلن اکون ظھیرا للمجرمین (القصص:17) ولکن الاعانة حقیقة ھی ما قامت المعصیة بعین فعل المعین، ولا یتحقق الا بنیة الاعانة او التصریح بھا الخ۔

وفیه ایضاً: (264/2، ط: معارف القرآن)
بیع الأشیاء إلیه(البنک) : وفیه تفصیل ، فإن کان المبیع ممایتمحض استخدامه فی عقد محرم شرعاً، مثل برنامج الحاسوب الذی صمم للعملیات الربویة خاصة، فإن بیعه حرام للبنك وغیرہ ، وکذلك بیع الحاسوب بقصد أن یستخدم فی ضبط العملیات المحرمة
ة أوبتصریح ذلك فی العقد. أمابیع الأشیاء التی لیس لہا علاقة مباشرۃ بالعملیات المحرمة ، مثل السیارات أو المفروشات ، فلیس حراماً، وذلك لأنها لایتمحض استخدامها فی عمل محظور

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 153 Jul 26, 2024
dukandar ka istemal shuda mobile ko daba pack or naya mobile keh kar farokht karna or ese dukandar ko mobile bechne ka hokom hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.