سوال:
وضو کے بارے میں پیروں کے دھونے سے متعلق سوال ہے کہ وضو میں پیروں کو دھونا چاہیے یا ان پر مسح کرنا چاہیے؟ کچھ لوگ موزے کے اوپر سے دھولیتے ہیں، خاص طور پر سعودیہ عرب میں یہ زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ براہ کرم آپ وضاحت فرمادیں کہ کیا یہ صحیح ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ وضو میں دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا فرض ہے، لیکن اگر کوئی شخص موزے پہنا ہوا ہو تو وہ اگر پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
البتہ کن موزوں پر مسح کرسکتا ہے اور کن پر نہیں؟ تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں، جن کو "خفین" کہا جاتا ہے، یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں دونوں طرف چمڑا چڑھا ہوا ہو، جن کو "مجلدین "کہا جاتا ہے، یا صرف نچلے حصے میں چمڑا چڑھا ہوا ہو، جن کو "منعلین "کہا جاتا ہے، ان تین قسموں (خفین، مجلدین اور منعلین) پر بالاتفاق مسح کرنا جائز ہے۔
اگر وہ موزے چمڑے کے نہ ہوں، بلکہ کسی موٹے کپڑے یا ریگزین وغیرہ کے ایسے موزے ہوں جو باندھے بغیر ٹخنوں پر کھڑے رہیں اور ان کو پہن کر جوتوں کے بغیرکم از کم تقریباً تین میل (چار کلو میٹر اور آٹھ سو تیس میٹر) چل سکیں، اور اس میں ٹخنوں تک پاؤں چھپے رہیں، نیز وہ پانی کو جذب کرنے والے نہ ہوں، یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کی نچلی سطح تک پانی نہ پہنچے تو ایسے موزوں پر بھی مسح کرنا جائز ہے، البتہ وہ باریک موزے جو آج کل لوگ عموماً پہنتے ہیں، جیسے: سوتی، اونی اور نائیلون وغیرہ کے موزے، ان کے بارے میں اجماع امت ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 6)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ
الدر المختار: (98/1، ط: دار الفکر)
(وغسل اليدين) أسقط لفظ فرادى لعدم تقييد الفرض بالانفراد (والرجلين) الباديتين السليمتين، فإن المجروحتين والمستورتين بالخف وظيفتهما المسح (مرة) لما مر (مع المرفقين والكعبين) على المذهب.
بدائع الصنائع: (مطلب المسح علی الجوارب، 10/1، ط: دار الکتب العلمیة)
فالمسح على الخفين جائز عند عامة الفقهاء، وعامة الصحابة - رضي الله عنهم - إلا شيئا قليلا.... وأما المسح على الجوربين، فإن كانا مجلدين، أو منعلين، يجزيه بلا خلاف عند أصحابنا وإن لم يكونا مجلدين، ولا منعلين، فإن كانا رقيقين يشفان الماء، لا يجوز المسح عليهما بالإجماع ، وإن كانا ثخينين لا يجوز عند أبي حنيفة وعند أبي يوسف، ومحمد يجوز.
الدر المختار مع رد المحتار: (باب المسح علی الخفین، 263/1، ط: دار الفکر)
(شرط مسحه) ثلاثة أمور: الأول (كونه ساتر) محل فرض الغسل (القدم مع الكعب) أو يكون نقصانه أقل من الخرق المانع، فيجوز على الزربول لو مشدودا....(و) الثاني (كونه مشغولا بالرجل) ليمنع سراية الحدث،....(و) الثالث (كونه مما يمكن متابعة المشي) المعتاد (فيه) فرسخا فأكثر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی