سوال:
صحت کے مسائل کی وجہ سے مجھے دو مرتبہ جزوی فالج ہو چکا ہے، اور سردیوں میں، حتیٰ کہ گرم پانی کے باوجود مجھے باقاعدہ غسل کرنا شدید مشکل ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اکثر میں جنابت کی حالت میں ہو جاتا ہوں، میں دل سے چاہتا ہوں کہ پابندی کے ساتھ نماز ادا کروں، لیکن اپنی صحت کی وجہ سے روزانہ غسل کرنا میرے لیے ممکن نہیں رہتا تو کیا ایسی صورت میں طہارت کے لیے کوئی شرعی رخصت یا متبادل طریقہ موجود ہے؟ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں بالوں کو دھوئے بغیر جسم دھو لوں یا صرف کمر کے نیچے پانی بہا کر نماز ادا کر لوں؟ اگر ایسا جائز نہیں تو پھر ایسے شخص کے لیے جو حقیقی طبی مجبوری میں مبتلا ہو، شریعت کا درست حل کیا ہے؟ مجھے نمازیں چھوڑنے پر شدید احساسِ جرم ہوتا ہے اور میں اسلام پر صحیح طریقے سے عمل کرنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر گرم پانی کے استعمال سے بھی آپ کو سابقہ احوال کے پیش نظر فالج ہوجانے کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں آپ تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں، اس سے پہلے آپ کی جو نمازیں رہ ہوچکی ہیں، ان کی قضا کرنا اور بر وقت ادا نہ کرنے پر توبہ واستغفار کرنا آپ کے ذمّہ لازم ہے۔
تیمّم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھ ماریں اور اس کے بعد ہاتھوں کو جھاڑ دیں اور پورے چہرے پر دونوں ہاتھ اس طرح پھیریں کہ کوئی جگہ خالی نہ رہے، پھر دوبارہ مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر جھاڑیں اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت مسح کرلیں، اگر انگوٹھی وغیرہ پہنی ہو تو اتار دیں اور انگلیوں کے درمیان اچھی طرح خلال کرلیں، اس طرح آپ کا تیمّم ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشية الطحطاوي علی مراقی الفلاح: (ص: 115، ط: دار الكتاب الإسلامي)
وإنما الخلاف في الجنب الصحيح في المصر إذا خاف بغلبة ظن على نفسه مرضا لو اغتسل بالبارد ولم يقدر على ماء مسخن ولا ما به يسخن فقال الإمام: يجوز له التيمم مطلقا وخصاه بالمسافر لأن تحقق هذه الحالة في المصر نادر والفتوى على قول الإمام فيها بل في كل العبادات وإنما أطلق المصنف لأن الكلام عند غلبة الظن وهي غير مجرد الوهم.
الدر المختار مع رد المحتار: (234/1، ط: دار الفكر)
(أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه،
قوله ولا ما يدفئه) أي من ثوب يلبسه أو مكان يأويه. قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لا يباح له التيمم إجماعا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی