سوال:
محترم مفتیان کرام! ایک مسئلہ میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔
میرے شوہر کا انتقال 2014 میں ہوا۔ اس وقت سے ان کی جائیداد تقسیم نہیں کی گئی، ان کے انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں (میں یعنی زوجہ)، پانچ بیٹیاں، تین بھائی اور ایک بہن زندہ تھے، میرے شوہر زندگی میں کہا کرتے تھے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں اور جو میری جائیداد ہے، وہ سب میری بیٹیوں کا ہے، اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی جائیداد صرف میرے اور میری بیٹیوں میں تقسیم ہوگی یا دیگر ورثاء (شوہر کے بھائی اور بہن) کا بھی ان کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے۔ نیز دونوں صورتوں میں جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟
2) میرے شوہر پر زندگی میں حج فرض ہوچکاتھا، لیکن وہ زندگی میں حج نہیں کرسکے اور نہ ہی مرتے وقت اس کی کوئی وصیت کی تھی کہ میرے مال سے حج ادا کروا دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا حج اگر ادا کرنا ہو تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ اگر ان کی جائیداد سے کسی کو حج کروا دیا جائے تو کیا ان کا حج فرض ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں ہبہ (Gift) مکمل ہونے کے لیے ہبہ کی ہوئی چیز کا مکمل قبضہ اور تصرف دینا ضروری ہے، قبضہ اور مالکانہ تصرف دیے بغیر صرف زبانی کہہ دینے سے ہبہ نافذ نہیں ہوتا ہے اور وہ چیز بدستور ہبہ کرنے والے کی ہی ملکیت میں رہتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مرحوم کا زندگی میں یہ کہنا کہ "جو کچھ میں کماتا ہوں اور جو میری جائیداد ہے، وہ سب میری بیٹیوں کا ہے، اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہے" صرف اس کہنے سے مرحوم والد کا مال و جائیداد صرف بیٹیوں کا نہیں ہوگا، بلکہ اس میں دیگر شرعی ورثاء کا بھی حق و حصہ ہوگا۔
اگر مرحوم کے صرف یہی ورثاء ہوں جو سوال میں ذکر (زوجہ، پانچ بیٹیاں، تین بھائی اور ایک بہن) کیے گئے ہیں تو ان کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم حسبِ ذیل ہوگی:
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو آٹھ سو چالیس (840) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوی کو ایک سو پانچ (105)، پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک سو بارہ (112)، تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو پچاس (50) اور بہن کو پچیس (25) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد، پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %13.33 فیصد، تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو %5.95 فیصد اور بہن کو %2.97 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 837)
تنعقد الهبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنها من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
الفتاوی الھندیة: (378/4، ط: رشیدیه)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی