سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! عرض یہ ہے کے ہمارے محلہ میں ایک بندے نے خودکشی کی، جس کی وجہ سے اس کا انتقال ہوگیا، پھر ایک محلہ کے امام نے کہا خودکشی کرنے والے کا نماز جنازہ نہیں ہوسکتا اور دلائل بھی دئیے اور پھر دوسری مسجد کے امام کو کہا انہوں پڑھایا اور نماز جنازہ کے حق میں دلائل بھی دئیے ہیں۔
آپ سے عرض یہ ہیکہ مجھے اپنی معلومات کے لیے پوچھنا ہے، ان میں سے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ خودکشی والے کا جنازہ پڑھایا اور پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ اگرکوئی شخص خودکشی کرے تو اس کا یہ فعل حرام ہے اورفاسق گناہ گارہوگا، لیکن کافرنہیں ہے، اس لیے اس کا جنازہ پڑھنا چاہیئے، البتہ دوسروں کو اس قبیح عمل سے بچانے کیلئے مقتدا قسم کے لوگ علماء اور مفتی حضرات وغیرہ کو نہیں پڑھنا چاہیئے، تاکہ اس عمل کی اہانت سب کو معلوم ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (211/2، ط: دار الفکر)
(من قتل نفسه) ولو (عمدا يغسل ويصلى عليه) به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره. ورجح الكمال قول الثاني بما في مسلم «أنه - عليه الصلاة والسلام - أتي برجل قتل نفسه فلم يصل عليه» .
أقول: قد يقال: لا دلالة في الحديث على ذلك لأنه ليس فيه سوى «أنه - عليه الصلاة والسلام - لم يصل عليه» فالظاهر أنه امتنع زجرا لغيره عن مثل هذا الفعل كما امتنع عن الصلاة على المديون، ولا يلزم من ذلك عدم صلاة أحد عليه من الصحابة؛ إذ لا مساواة بين صلاته وصلاة غيره. قال تعالى {إن صلاتك سكن لهم} [التوبة: ١٠٣]
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی