عنوان: طلاق نامہ پر نکاح سے پہلے کی تاریخ درج کرنا (19207-No)

سوال: میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر نے اسٹامپ پیپر مجھے تین بار لکھ کر دیا ہے کہ میں اپنی زوجہ (نام) کو طلاق دیتا ہوں اور اسٹامپ پیپر وہ استعمال کیا ہے جس پر لکھا ہے "NOT FOR FREE WILL AND DIVORCE DEED" اور نکاح 28.6.24 کو ہوا تھا، جبکہ اس پر 26.6.24 تاریخ لکھی ہوئی ہے یعنی نکاح سے پہلے کی تاریخ لکھی ہے اور شوہر کے دستخط بھی وہ نہیں ہیں جو نکاح نامہ پر تھے، تھوڑا بہت فرق ہے، اور شوہر کے نام کا پہلا لفظ زاء سے شروع ہوتا ہے، جبکہ پیپر پر ذال سے شروع کیا گیا ہے اور اسٹامپ پیپر بھی پچاس روپے والا ہے اور ساتھ نکاح نامہ کی فوٹو کاپی بھی ہے۔
اس ضمن میں پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھے طلاق ہوگئی ہے، جبکہ انہوں نے کبھی منہ سے نہیں بولا اور نہ ہی اب کوئی رابطہ ہے؟
تنقیح:
آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہے آپ اپنے شوہر سے درج ذیل باتوں کی وضاحت طلب فرمائیں:
1) کیا یہ طلاق نامہ آپ کے شوہر نے خود لکھا ہے یا ان کے کہنے پر کسی نے لکھا ہے؟
2) طلاق نامہ رخصتی سے پہلے لکھا گیا تھا یا رخصتی کے بعد لکھا گیا ہے؟
3) طلاق کے اصل الفاظ بھی تحریر فرمائیں۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
1) کمپیوٹرائزڈ اسٹامپ پیپر پر ہے۔
2) رخصتی کے بعد لکھا ہے۔
3) طلاق کے الفاظ یہ ہیں: میں زوہیر حسن ولد فخرالحسن اپنی زوجہ عائشہ بنت مشتاق احمد کو طلاق دیتا ہوں اور یہ تین بار لکھا ہوا ہے۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ کے شوہر نے مذکورہ طلاق نامہ نکاح اور رخصتی کے بعد بنوایا ہے تو اس سے آپ پر تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے حرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اب آپ میاں بیوی کا ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے، نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح ہوسکتا ہے۔
طلاق نامہ پر غلط تاریخ درج کرنے اور دستخط میں فرق ہونے کی وجہ سے طلاق کے وقوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح القدیر: ( کتاب الطلاق، 269/3، ط: دار الفکر)
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".

رد المحتار: (مطلب فی الطلاق بالکتابة، 246/3، 247، ط: دار الفکر)
ولو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل ابعث به إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا

الفتاوی الهندية: (الفصل السادس، 378/1، ط: دار الفکر)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 75 Aug 22, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.