عنوان: بیٹوں کا والد کی زندگی میں ان کے مکان کی تعمیر کروانے کے عوض میراث میں زیادہ حصہ لینا (19211-No)

سوال: مفتی صاحب! میراث کے حوالے سے آپ سے ایک مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہوں، امید ہے کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
(1) مسئلہ یہ ہے کہ ہماری فیملی جس مکان میں رہ رہی تھی، وہ مکان بوسیدہ اور خستہ حال ہونے کی وجہ سے آج سے تقریباً 15 سال پہلے والد صاحب ہی کی زندگی میں دو تین بھائیوں نے مل کر اسے بالکل ہی منہدم کرکے نیا مکان بنا لیا، اب دو سال پہلے والد صاحب وفات کرچکے ہیں تو کیا ان بھائیوں کو میراث تقسیم ہوتے وقت اس تعمیر کی رقم ملے گی؟ یہ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ورثاء کو ہم نئی بنی ہوئی جگہ کے حساب سے حصہ نہیں دیں گے، بلکہ پلاٹ کی رقم لگوا کر اس حساب سے باقی ورثاء کو حصہ دیں گے، کیا بھائیوں کا یہ عمل درست ہے؟
(2) ہم پانچ بھائی اور پانچ بہنیں تھیں، جن میں دو بہنیں والد صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی تھیں، اب ہم پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں، ہمارے درمیان وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
(3) جو دو بہنیں والد صاحب سے پہلے فوت ہوچکی ہیں، کیا والد کی میراث میں ان کا حصہ ہے اور اگر حصہ ہے تو ان کا حصہ ان کی اولاد میں کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب: 1) پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹوں نے والد صاحب سے قرض یا واپسی کی صراحت کے ساتھ تعمیرات میں رقم لگائی تھی تو ان کو مکان کی تعمیر میں اپنی لگائی ہوئی رقم ملے گی اور اگر والد صاحب سے قرض یا واپسی کی صراحت کے بغیر رقم لگائی تھی تو ان کو تعمیرات میں لگائی ہوئی رقم نہیں ملے گی، بلکہ یہ ان کی طرف سے اپنے والد کے لیے تبرع اور احسان ہوگا، لہذا یہ مکان والد صاحب کی ملکیت شمار کیا جائے گا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا۔
نیز واضح رہے کہ اگر میراث کئی سالوں بعد تقسیم ہو رہی ہو تو اس میں چیزوں کی قیمت کا تعین موجودہ قیمتوں کے اعتبار سے کیا جائے گا، لہذا تقسیم کے وقت گھر کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی۔
2) مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو تیرہ (13) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو (2) اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیٹے کو %15.38 فیصد حصہ اور ہر ایک بیٹی کو %7.69 فیصد حصہ ملے گا۔
3) جن دو بیٹیوں کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہوگیا تھا، ان بیٹیوں اور ان کی اولاد کا مرحوم کی میراث میں کچھ حصہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ

الدر المختار مع رد المحتار: (747/6، ط: دار الفکر)
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء...قوله ( عمر دار زوجته الخ ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين . وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له وله رفعه إلا أن يضر بالبناء فيمنع ولو بنى لرب الأرض بلا أمره ينبغي أن يكون مبترعا كما مر إ ه…. قوله ( والنفقة دين عليها ) لأنه غير متطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها فصار كالمأمور بقضاء الدين ، زيلعي ، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع، وفي المسألة اختلاف وتمامه في حاشية الرملي على جامع الفصولين قوله ( فالعمارة له ) هذا لو الآلة كلها له فلو بعضها له وبعضها لها فهي بينهما ط عن المقدسي قوله ( بلا إذنها ) فلو بإذنها تكون عارية ط.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (314/3، ط: دار الجيل)
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.

بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل

رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 81 Aug 23, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.