سوال:
کیا کسی مسیحی لڑکی سے شادی کی اجازت ہے؟ اور اگر کسی عیسائی لڑکی سے شادی کی اجازت ہو تو کسی کو شادی کے معاہدے کے لئے گرجا گھر جانا پڑتا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمان لڑکا وہاں جاکر نکاح کرے؟ شادی کے بعد جب ان کی اولاد ہوتی ہے اور ماں بچوں کو چرچ میں لے جاتی ہے یا کسی عیسائی مذہبی تقریب میں تو مسلمان شوہر گنہگار ھوگا؟
جواب: اہل کتاب سے نکاح کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
پہلی بات:
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اہل کتاب سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اہل کتاب سے کیا مراد ہے؟
امت کا اتفاق ہے کہ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں، جو کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتے ہوں، جس کا کتاب اللہ ہونا بتصدیق قرآن یقینی ہو، جیسے تورات، انجیل اور زبور وغیرہ اور وہ اس کو وحی الہی قرار دیتے ہوں۔
دوسری بات:
آج کل کے عیسائی اور یہودیوں کی بہت بڑی تعداد صرف نام کے یہودی یا عیسائی کہلاتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ نہ ہی خدا کے وجود کے قائل اور نہ ہی کسی مذہب کے قائل ہیں، نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسی و عیسی علیھماالسلام کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں، لہذا اس قسم کے عیسائی و یہودی ملحد اور لادین ہیں،کسی طرح اہل کتاب میں شمار نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
تیسری بات:
اگر کسی مسلمان نے اہلِ کتاب کی کسی عورت سے شادی کی ہو تو شرعی قانون کے لحاظ سے اولاد مسلمان شمار ہوگی، لیکن باہر کے ممالک میں عیسائی عورتوں سےجو شادیاں کی جاتی ہیں، ان سے پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کا مذہب اختیار کرلیتی ہے اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے یہ جوڑا طے کرلیتا ہے کہ آدھی اولاد شوہر کی ہوگی اور آدھی بیوی کے مذہب پر ہوگی، اگر ایسی شرط لگائی جائے تو ایسی شادی کرنے والا مسلمان یہ شرط لگاتے ہی مرتد ہوجائے گا، کیونکہ اس نے اپنی اولاد کے کافر ہونے کو گوارا کرلیا اور اس پر رضامندی دے دی، اور کسی کے کفر پر راضی ہونا بھی کفر ہے، لہٰذا ایسی شرط لگاتے ہی یہ شخص ایمان سے خارج ہوکر مرتد ہوجائے گا۔
لہذا ان ساری باتوں سے یہ ثابت ہوا کہ عیسائی اور یہودی عورت سےمسلمان کا نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے، بشرطیکہ عورت واقعۃً عیسائی مذہب پر ہو اور شرعی طریقے پر دو گواہوں کے سامنے نکاح ہوا ہو، لیکن عیسائی عورتوں سےشادی کرنے میں بہت مفاسد اور فتنوں میں پڑنے کا اندیشہ ہے، اس لیے اجتناب کرنا زیادہ بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (45/3، ط: دار الفکر)
(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها.
الھدایۃ: (کتاب النکاح، 330/2، ط: رحمانیۃ)
(ویجوز تزوج الکتابیات)لقولہ تعالی والمحصنات من الذین اوتواالکتاب:ای العفائف۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی