سوال:
ماتم کرنا اور اسے دیکھنے کے لئے جانا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی اپنے ساتھیوں سمیت شہادت شہداء کربلا کے لیے طمغہ امتیاز ہے، اور قرآن مجید میں شہداء کو زندہ کہا گیا ہے:ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔(سورہ بقرہ، آیت نمبر: 154)
مشکوۃ میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے رخسار پیٹے ، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے۔'' (صحیح بخاری، حدیث نمبر:1297)
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں: اگر حضرت حسینؓ کی شہادت کا دن یوم مصیبت و ماتم کے طور پر منایا جائے تو پیر کا دن اس غم کے لئے زیادہ سزا وار ہے، کیونکہ اس دن حضرت رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفات پائی ہے اور اسی دن میں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے بھی وفات پائی ہے۔ (حالانکہ کوئی ایسانہیں کرتا) (غنیۃ الطالبین: 93/2) لہذا حضرت حسین ؓ اور شہداء کربلا کی یاد میں ماتم کرنا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرہ، الایۃ: 154)
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَo
مشکاۃ المصابیح: (154/1، ط: المکتب الاسلامی)
عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية»
غنیۃ الطالبین: (93/2)
ولو جاز ان یتخذ یوم موتہ یوم مصیبۃ لکان یوم الاثنین اولیٰ بذلک اذ قبض ﷲ تعالیٰ نبیہ محمداً ﷺفیہ وکذالک ابو بکر الصدیق رضی اﷲ عنہ قبض فیہ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی