سوال:
"لبیک یا رسول اللہ" یا "لبیک یا حسین" کہنا کیسا ہے؟
جواب: "لَبَّیک یا رسول اللہ" میں "لَبَّيك" عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں: "میں آپ کی اطاعت کے لئے بار بار حاضر ہوں"۔ اس کے بعد لفظ " یا" ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کو پکارنے کےلئے استعمال ہوتا ہے جو سامنے موجود ہو، لہٰذا "لَبَّیک یا رسول اللہ" کلمۂ خطاب ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: "اے اللہ کے رسول میں آپ کی اطاعت کے لئے ہر وقت حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت میں وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوں جو آپ چاہیں"، یہ کلمہ کہنا نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتوں کے مختلف احکام ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱) اس نیت اور عقیدے کے ساتھ یہ جملہ کہنا کہ آپ ﷺ بذات ِ خود ہر وقت، ہر جگہ میری آواز سنتے ہیں اور میری حالت کو جانتے ہیں یا بنفسِ نفیس اس مجلس میں موجود ہوتے ہیں، جس میں آپ کو اس قسم کے جملے سے پکارا جائے۔
۲) اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے اختیارات جیسے اختیارات رکھنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرح تصرف کرنے والا سمجھتے ہوئے ان سے مدد طلب کرنے کے لئے ایسا جملہ کہنا۔
۳) مذکورہ بالا عقیدوں میں سے کوئی عقیدہ نہ ہو، بلکہ صرف زیادہ محبت کی وجہ سے عاشقانہ انداز میں اس قسم کے جملہ کا استعمال کیا جائے، جس طرح شاعر اپنے ذہن اور خیالات میں محبوب کو مخاطب کرکے اس انداز سے اشعار کہتے ہیں۔
۴) روضۂ اطہر پر یہ جملہ کہنا۔
پہلی دو صورتیں ناجائز اور شرک ہیں، جبکہ تیسری اگرچہ جائز ہے، لیکن اس کے باوجود عام حالات میں اس قسم کا جملہ نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ اس سے عام لوگوں کے عقیدے کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور چوتھی صورت (روضہ اقدس پہ یہ کہنا) مطلقا جائز ہے۔
یہی تفصیل "لبیک یا حسین" کہنے میں بھی ہے، البتہ "یاحسین" کے جملہ سے ایک خاص فرقے کے عقیدے کی طرف اشارہ اور اس کی تائید ہوتی ہے، جس سے بہرحال بچنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بوادرالنوادر: (706 إلى 709، ط: اداره اسلاميات)
إن التوسل بالمخلوق له تفاسير ثلثة: الأول: دعاؤه واستغاثه كديون المشركين وهو حرام اجماعا أما أنه شرك جلي أم لا فمعياره أنه ان اعتقد استقلالا بالتاثير فهو شرك كفري اعتقادا كما أن الصلوة والصوم ممايختص بالله تعالى للمخلوق شرك كفري عملا ومعاملة لا سجدة التحية وإن كانت معصية….ومعني استقلاله ان الله قد فوض إليه الأمور بحيث لا يحتاج في إمضائها إلي مشيئته الجزئية وإن قدر علي عزله عن هذا التفويض والثاني: طلب الدعاء منه وهذا جائز فيمن يمكن طلب الدعاءمنه ولم يثبت في الميت بدليل فيختص هذاالمعني بالحي والثالث:دعاء الله ببركة هذا المخلوق المقبول وهذا قدجوزه الجمهور ومنع منه ابن تيمية وأتباعه……وليس في التوسل دعاء المخلوقين ولااستغاثه لكن فيه سوال بجاهه……وحقيقة هذا المعني الثالث اللهم ان العبد الفلاني أوالعمل الفلاني لنا أو لفلان مقبول ومرضي عندك ولنا تلبس وتعلق به إما مباشرة له في العمل وإما محبة له في العبد أو عمله و أنت وعدت الرحمة بمن له هذا التلبس فنسئلك هذا الرحمة.
البحر الرائق: (3 / 94، ط: دارالكتاب الاسلامي)
ويكفر لاعتقاده أن النبي يعلم الغيب.
لسان العرب (1 / 729، ط: دار صادر)
وقولُهم لَبَّيكَ ولَبَّيهِ مِنه أَي لُزوماً لطاعَتِكَ وفي الصحاح أَي أَنا مُقيمٌ على طاعَتك…قال الخليل هو من قولهم دار فلان تُلِبُّ داري أَي تُحاذيها أَي أَنا مُواجِهُكَ بما تُحِبُّ إِجابةً لك والياء للتثنية وفيها دليل على النصب للمَصدر وقال سيبويه انْتَصَب لَبَّيْكَ على الفِعْل كما انْتَصَبَ سبحانَ اللّه وفي الصحاح نُصِبَ على المصدر كقولك حَمْداً للّه وشكراً وكان حقه أَن يقال لَبّاً لكَ وثُنِّي على معنى التوكيد أَي إِلْباباً بك بعد إِلبابٍ وإِقامةً بعد إِقامةٍ قال الأَزهري سمعت أَبا الفضل المُنْذِرِيَّ يقول عُرضَ على أَبي العباس ما سمعتُ من أَبي طالب النحويّ في قولهم لَبَّيْكَ وسَعْدَيْكَ قال قال الفراء معنى لَبَّيْكَ إِجابةً لك بعد إِجابة قال ونصبه على المصدر.
فتاوی حقانيه: (1/162، ط: دار العلوم حقانیہ)
فتاوی دار العلوم کراچی (امداد السائلین): (1/150، ط: ادارۃ المعارف)
اختلاف امت اور صراط مستقیم: (48، ط: مکتبہ لدھیانوی)
معارف القرآن از مفتی محمد شفیع (1/99، ط: مکتبہ معارف القرآن)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص، کراچی