سوال:
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ، حضرت ! یہ فرمائیے کہ اگر ایک شخص عرفات میں وقوف کرتا ہے، لیکن تاخیر سے جانے کی وجہ سے وہاں ظہر اور عصر کی نماز نہیں پڑھتا، بلکہ مکہ مکرمہ میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں ادا کرتا ہے تو اب وہ اس بات کا ازالہ کس طرح کر سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ وقوف عرفات کا وقت یوم عرفہ( ٩ ذی الحجہ) زوال کے بعد سے یوم النحر (١۰ ذی الحجہ) کی طلوع فجر تک ہوتا ہے، اس دوران اگر حاجی حالت احرام میں کچھ دیر کے لیے بھی وقوف کرلے، تو فرض وقوف ادا ہو جائے گا، وہاں ظہر وعصر کی نماز میں حاضر نہ ہونا اور تاخیر سے جانے سے کوئی دم واجب نہیں ہوگا، تاہم استغفار کرکے اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الحج، 202/2)
" والحج فرضہ ثلاثۃ الا حرام الخ والوقف بعرفۃ فی اوانہ
وھو من زوال یوم عرفۃ الی قبیل طلوع فجر النحر
بدائع الصنائع: (کتاب الحج، فصل رکن الحج، 125/2- 127)
"اما زمانہ فزمان الوقف من حین تنزول الشمس من یوم عرفۃ الی طلوع الفجر الثانی من یوم النحر حتی لو وقف بعرفۃ فی غیر ھذا لوقت کان وقوفہ وعدم وقوفہ سواء لانہ فرض موقت الخ کذا من لم یدرک عرفۃ بنھار ولا بلیل فقد فاتہ الحج الخ اما القدر المفروض من الوقوف فھو کینونتہ بعرفۃ فی ساعۃ فی ھذا الوقت فمتی حصل اتیانہا فی ساعۃ من ھذا الوقت تادی فرض الوقوف سواء کان عالما او جا ھلا نائما او یقبظان مضییقا او معمی علیہ … وقف بھا او مر وھو یمشی او علی الدابۃ او محمولا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی