عنوان: الکحل ملی ہوئی دوا استعمال کرنے کا حکم(2092-No)

سوال: حضرت ! سوال ہے کہ دوائی کے اندر کچھ مقدار شراب کی ہے، کیا یہ دوائی پینا ٹھیک ہے؟ مر یض کے لیے استعمال کرنی بھی ضروری ہے۔

جواب: واضح رہے جس دوائی میں انگور یا کھجور سے بنا ہوا الکحل استعمال ہوا ہو، وہ دوائی تو بالاتفاق حرام اور ناپاک ہے، لیکن جس دوا میں ان دونوں کے علاوہ دوسری چیزوں یا کیمیکل سے بنا ہوا الکحل استعمال ہوتا ہو تو ان دواؤں کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ آج کل دواؤں میں جو الکحل ملایا جاتا ہے، وہ عموماً انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر اشیاء، مثلاً: گندم، جو اور گنے کے شیرہ وغیرہ سے بنا ہوا ہوتا ہے، جس کے استعمال کرنے کی عمومِ بلوی کی وجہ سے فقہ حنفی میں اجازت ہے، اس لئے اس قسم کی ہومیو پیتھک دوائیں، جن میں کھجور اور انگور کے علاوہ کسی دوسری چیز سے بنا ہوا الکحل استعمال ہوا ہو، ان کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ ڈاکٹر کی مجوزہ مقدار (prescribed dosage) کےاستعمال کرنے سے نشہ نہ آتا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تکملۃ فتح الملھم: (کتاب الأشربۃ)
وأما غیر الأشربۃ الأربعۃ فلیست نجسۃ عند الإمام أبي حنیفۃؒ، وبہذا یتبین حکم الکحول المسکرۃ التي عمت بہا البلویٰ الیوم، فإنہا تستعمل في کثیر من الأدویۃ، والعطور، والمرکبات الأخری، فإنہا إن اتخذت من العنب، أو التمر، فلا سبیل إلی حلتہا أوطہارتہا، وإن اتخذت من غیرہما فالأمر فیہا سہل علی مذہب أبي حنیفۃؒ ولایحرم استعمالہا للتداوي، أو لأغراض مباحۃ أخری، ما لم تبلغ حدالإسکار؛ لأنہا إنما تستعمل مرکبۃ مع المواد الأخریٰ ولا یحکم بنجاستہا أخذاً، بقول أبي حنیفۃؒ ، وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ، والعطور وغیرہا لاتتخذ من العنب، أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب، أو القشور، أوالبترول وغیرہ… وحیئذ ہناک فسحۃ في الأخذ بقول أبي حنیفۃؒ عند عموم البلویٰ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1913 Sep 14, 2019
alcohal mili hoi dawa istemaal karne / karney ka hukum / hukm, Ruling on the use of tablets / medicine containing alcohol

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.