سوال:
میرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک غیر مسلم مسلمان میت کو غسل دے سکتا ہے یا نہیں؟
اگر کسی میت کو غسل دیا ہو اور اسےدفن کیا گیا ہو، تو اسے دوبارہ غسل دینے کےلیے نکال سکتے ہیں یا نہیں؟ وہ غسل غسل شمار ہوگا ؟
جواب: مسلمان شخص کی میت کو غسل دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، لہذا مسلمان مردوں کے ہوتے ہوئے، کسی کافر شخص کا مسلمان مرد کی میت کو غسل دینا درست نہیں ہے، البتہ اگر مسلمان مردوں کو غسل دینے کے لیے مسلمان مرد موجود نہ ہوں، تو اس صورت میں کافر مرد غسل کا طریقہ معلوم کر کے مسلمان مرد کی میت کو غسل دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جب میت کو ایک دفعہ غسل دے کر دفنا دیا گیا ہو، تو اب اس میت کو دوبارہ غسل کے لیے قبر سے نکالنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (الفصل الثانی في الغسل، 176/1، ط: دار الکتب العلمیہ)
ولو مات الرجل فی السفر و معه نساء و رجل کافر فأنھن یعلمنه الغسل و یخلین بینھما حتی یغسله ۔ ۔ ۔ وان ماتت المرأة فی السفر ومعھا أمراة كافرة أو صبي لم یبلغ حد الشھوة، فأنه یفعل بھا کما ذکرنا فی حق الرجال، ھکذا فی المضمرات... وینبغی ان لا یمکن الأب الکافر من القیام بغسل ابنه المسلم أذا مات بل یفعله المسلمون
بدائع الصنائع: (فصل و أما بیان ماتصح بہ و ماتفسد و ماتکرہ، 349/2، ط: دار الحدیث)
ولوذکروا بعد الصلاۃ علی المیت انھم لم یغسلوہ فھذا علی وجھین اما ان ذکروا قبل الدفن اوبعدہ فان کان قبل الدفن غسلوہ وأعادوا الصلاۃ علیہ لان طہارۃ المیت شرط لجواز الصلاۃ علیہ … وأن ذکروا بعد الدفن لم ینبشوا عنه، لأن النبش حرام حقا لله تعالی، قیسقط الغسل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی