سوال:
ساس رات کو اپنے بیٹے اور بہو کے کمرے میں ہر مہینے ایک ھفتہ تک رات کو سوتی ہیں، جبکہ ان کے اور بیٹوں کے گھر بھی موجود ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: شوہر کے ذمے بیوی کا حق ہے کہ اس کو ایک علیحدہ کمرہ دیا جائے، جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو، لہذا ساس کا رات کو بہو کے کمرے میں بلاعذر سونا مناسب نہیں ہے، ہاں! اگر کوئی عذر ہو تو ساس اس کمرے میں عارضی طور پر رات گزار سکتی ہے، تاہم واضح رہے، چونکہ علیحدہ کمرہ عورت کا حق ہے، اس لیے ہر حالت ميں چاہے عذر ہو یا نہ ہو، ساس کے اس کمرے میں رات گزارنے کےلیے بہو کی دلی رضامندی اور اجازت ضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
خلاصۃ الفتاوی: (53/2)
فی المنتقی إذا کان الرجل وامرأتہ فی لحاف لا بأس بأن یدخل علیھما الولد والأخ بعد أن لا ینکشف منھا محرم و بعد أن لا تکونا فی المجامعۃ۔
وفیہ أیضا: قال أبو حنیفۃ و أبو یوسف رحمھما الله لاینبغی للرجل أن یدخل علی أمہ وبنتہ وأختہ إلا بإذن وکذا کل ذی رحم محرم وکذا العبد علی مولاتہ الخ۔
نجم الفتاوی: (368/5)
الدر المختار: (599/3، ط: دار الفکر)
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی