سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ میری طرف سے طلاق سمجھو۔ دوسرا جملہ اس کا یہ تھا کہ تین دفعہ سمجھو۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ شرعی لحاظ سے کیا اس عورت کو طلاق ہو گئی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ "طلاق سمجھو" کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ الفاظ (میری طرف سے طلاق سمجھو) کہنے سے شخصِ مذکورہ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، البتہ آئندہ ایسے الفاظوں کے کہنے سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (380/1، ط: دار الفکر)
امرأة قالت لزوجها: مرا طلاق دهفقال الزوج: داده كيرو كرده كير أو قال داده باد وكرده بادان نوى يقع ويكون رجعيا وإن لم ينو لا يقع ولو قال داده است أو كرده است يقع نوى أو لم ينو ولا يصدق في ترك النية قضاء ولو قال: داده إنكار أو كرده إنكار لا يقع وإن نوى ولو قال لها بعدما طلبت الطلاق: داده كير وبر.
امداد الفتاوی: (450/2، ط: دار العلوم کراتشي)
فتاویٰ دار العلوم زکریا: (28/4، ط: زمزم ببلشرز)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی