سوال:
ایک خاتون سولہ سال تک نکاح میں رہی مگر کوئی اولاد نہیں ہوئی اور سولہ سال کے بعد خاتون کا انتقال ہوگیا، اس خاتون کے والد یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جہیز میں اپنی مرحومہ بیٹی کو جو زیور دیا تھا اور اس کے شوہر نے جو نکاح میں زیور دیا تھا وہ سب صدقہ جاریہ میں کردیں تو کیا ایسا کرسکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ انتقال کے وقت مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑتا ہے، وہ سب اس کے ترکہ میں شامل ہوتا ہے، جو اس کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔ ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ مشترکہ ترکہ میں سے دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی تصرف کرے، خواہ میت کے صدقہ جاریہ کے لئے ہی خرچ کرنا کیوں نہ ہو۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر مرحومہ کے تمام ورثاء بالغ ہوں اور وہ اپنی رضامندی سے مرحومہ کے متروکہ زیورات کو اس کے صدقہ جاریہ کے لئے صرف کرنا چاہتے ہوں تو شرعاً اس کی اجازت ہوگی، لیکن اگر ورثاء کی رضامندی نہ ہو تو اسں صورت میں مرحومہ کے ترکہ کو صدقہ جاریہ نہیں کیا جاسکتا، البتہ تقسیم کے بعد ہر ایک اپنے حصے میں خود مختار ہوگا، اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعد اگر مرحومہ کے لیے صدقہ جاریہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (759/6، ط: دار الفكر)
تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
شرح المجلة لخالد اتاسی: (الماده: 1071، ص: 12، ط: مکتبة اسلامية)
يجوز لأحد أصحاب الحصص التصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر، لكن لايجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی