سوال:
مفتی صاحب! کیا والد کی وفات کے بعد گھر کے عام استعمال کا سامان جیسے: فرنیچر، برتن، مشینری وغیرہ بھی والد کی میراث میں آتا ہے یا والدہ کے حصہ میں آتا ہے؟ اور اگر یہ سامان وراثت کے حصہ میں آتا ہے تو اس کی تقسیم کیسے کی جاسکتی ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس کی مملوکہ تمام اشیاء خواہ کپڑے ہوں یا روز مرہ کی ذاتی استعمال کی اشیاء، سب اس کے ترکہ میں شمار ہوتی ہیں، اسی طرح جو گھریلو سامان اپنی زندگی میں اپنی جیب سے خریدتا رہا ہو، وہ بھی اس کی ملکیت شمار ہوتا ہے، جو مرنے کے بعد حسبِ حکمِ شریعت ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے اور ایسا گھریلو سامان جو میاں بیوی نے آپس میں مشترکہ طور پر خریدا ہو، اس میں اگر بیوی نے اپنے شوہر کے ساتھ تعاون اور احسان کے طور پر شرکت کی تھی تو وہ سامان بھی مرحوم کے ترکہ میں ہی شمار ہوتا ہے، لیکن اگر بیوی نے بطورِ شریک کے اس سامان کی خریداری میں شرکت کی ہو تو ایسی صورت میں اتنا حصہ ترکہ میں شمار ہوتا ہے، جتنے حصہ میں شوہر نے شرکت کی تھی اور وراثت بھی اتنے حصے میں جاری ہوتی ہے۔
پس وہ تمام چیزیں جو مرحوم کی ملکیت میں تھیں اور وہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرف کا اہل تھا، وہ سب چیزیں مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر میراث میں تقسیم ہوں گی، چاہے وہ نقدی کی شکل میں ہوں یا گھریلو چیزیں ہوں۔
البتہ مشورہ کے طور پر عرض کیا جاتا ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں جن کی تقسیم کرنا مشکل ہے، تمام ورثاء کی دلی اجازت سے کسی ایک وارث کو دیدیں یا کسی غریب کو صدقہ میں دیدی جائیں یا کسی نیک آدمی کو ھدیہ کردی جائیں تو اس کا ثواب مرحوم کو بھی ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (447/6، ط: دار الفکر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين، تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين، ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث.
الدر المختار مع رد المحتار: (759/6، ط: دار الفکر)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني)
(قوله الخالية... إلخ) صفة كاشفة لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی