عنوان: "میری طرف سے تم آزاد ہو جہاں جانا چاہو جاؤ کچھ نہیں کہوں گا" کہنے سے طلاق کا حکم (21298-No)

سوال: مفتی صاحب! میرا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پچھلے سال اکتوبر میں میں نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ "میری طرف سے تم آزاد ہو جہاں جانا جینا چاہو جاؤ میں کچھ نہیں کہوں گا" میرا مقصد کہنے کا یہ تھا کہ وہ مجھ سے ناخوش تھیں تو میں نے اپنے ذہن میں یہ سوچ کر کہا کہ جیسے رہنا چاہتی ہے رہے، یہ اوپر اکیلی رہ لیں اور میں نیچے رہ لیتا ہوں، سودا سلف لاکر دیتا رہوں گا، لیکن دو دن بعد میری ہمشیرہ نے کہا جو کہ عالمہ ہیں اور ایک مفتی صاحب نے بھی کہا کہ طلاقِ بائن واقع ہو گئی ہے۔
اس کے بعد وہ اپنے میکے چلیں گیئں، وہاں جاکر انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ حاملہ ہیں تو میں بات چیت کرتا تھا اور ان کو کہا تھا کہ جیسے ہی بچے کی پیدائش ہوگی تو میں آپ کو لے آؤں گا، کیونکہ میں واپس رجوع کرنا اور لانا چاہتا تھا، زبان سے ان کو نہیں کہا کہ رجوع کیا، البتہ دوسری تمام گفتگو میں نے کی ہے کہ لے آؤں گا، لیکن بچے کی ساتویں ماہ میں وفات ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ میری دورانِ حمل گفتگو سے کیا رجوع ہوگیا تھا یا نہیں کیونکہ میری نیت تو لانے کی تھی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ میری اہلیہ کے بھائی نے پنجاب میں کہیں سے پوچھا ہے کہ آزاد ہو لفظ سے طلاق ہوگئی یا نہیں؟ تو وہاں کے دو تین حضرات نے بقول ان کے کہ یہی کہا کہ اگر اس کی نیت طلاق کی تھی تو ہوگئی اور اگر نہیں تھی تو طلاق نہیں ہوئی، میری نیت تھی آزاد رہے اپنی مرضی سے رہے۔ پلیز آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا
تنقیح:
محترم اس سوال کے جواب کے لیے یہ وضاحت فرمائیں کہ جب "میری طرف سے تم آزاد ہو" کے جملے کہے اس وقت کیا بات چیت چل رہی تھی؟ اس سے متعلق وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔ جزاک اللہ خیراً
جواب تنقیح:
حضرت گفتگو نہیں ہورہی تھی بس میں صحبت کے لیے گیا تھا، انہوں نے مجھے دھکا دے دیا تھا تو میں ناراض ہوگیا تھا اور اس ٹینشن میں گھر کے دروازے پر بس کھڑا تھا تو ان کو میں نے یہ میسیج کردیا اور میسیج یہی سوچ کر کیا تھا کہ اب اس کے پاس نہیں جاؤں گا یہ اوپر اکیلی خوش رہے، میں نیچے رہ لیتا ہوں، باقی جہاں تک بات چیت کا تعلق ہے، وہ میں نے کی ہی نہیں ان سے کمرے سے نکل گیا تھا

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ نے اپنی بیوی کو جب یہ لکھ کر میسج کیا کہ "میری طرف سے تم آزاد ہو جہاں جانا جینا چاہو جاؤ میں کچھ نہیں کہوں گا" تو ان الفاظ سے آپ کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس کے علاوہ کوئی اور طلاق آپ نے اپنی بیوی کو نہیں دی ہے تو اس وقت چونکہ بچہ پیدا ہونے کے بعد عدت گزرچکی ہے، اس لیے باہمی رضامندی سے نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ الفاظ کا تعلق ہے کہ "جیسے ہی بچے کی پیدائش ہوگی تو میں آپ کو لے آؤں گا"، محض ایک وعدے اور ارادے کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ان سے رجوع متحقق نہیں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (299/3، ط: دار الفكر)
و يدل على ذلك ما ذكره البزازي عقب قوله في الجواب المار إن المتعارف به إيقاع البائن لا الرجعي، حيث قال ما نصه: بخلاف فارسية قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه.

کذا في تبویب فتاوى جامعة دار العلوم كراتشي: (1429/94)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 242 Sep 20, 2024
"mere taraf se tum azad ho jaha jana chaho jao kuch nahi kahunga" kehne se talaq ka hukum No results found for "mere tara

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.