سوال:
1) کاشف اپنے دوست عاصم کو پچاس لاکھ کی رقم دیتا ہے اور اس سے یہ طے کرتا ہے کہ اس کے اوپر آٹھ لاکھ روپے نفع دو گے، کیا یہ صورت جائز ہے؟
2) اگر کاشف جیولرز کی دکان پچاس لاکھ کا سونا خرید کر اپنے دوست عاصم کو دے اور اس سے کہے کہ مجھے اس سونے آٹھ لاکھ کا نفع کما کر دو تو کیا یہ صورت جائز ہے؟ عاصم کہتا ہے کہ اگر یہ مسئلہ جائز ہے تو میں ہر مہینے کاشف کو اٹھاون لاکھ کی ساٹھ قسطیں ادا کروں گا ہر مہینہ کی قسط چھیانوے ہزار سات سو ہوگی۔
جواب: 1) واضح رہے کہ کسی کو ادھار رقم دیکر اس پر اضافی رقم لینا سود کی ایک صورت ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے٬ لہذا پوچھی گئی صورت میں کاشف کا اپنے دوست کو پچاس لاکھ روپے ادھار دے کر اس کے اوپر متعین آٹھ لاکھ روپے اضافی رقم واپس کرنے کی شرط لگانا سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
2) سنار سے سونا باقاعدہ خرید کر اسے اپنے قبضہ میں لینے کے بعد باہمی رضامندی سے کسی شخص کو مقررہ مدت کیلئے قسطوں پر فروخت کرنا شرعاً درست ہے، البتہ سونے کو قسطوں پر بیچنے کی صورت میں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت طے کرنا چونکہ سود حاصل کرنے کا حیلہ بن سکتا ہے، اس لیے قسطوں کی وجہ سے اس کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے زیادہ قیمت مقرر نہ کی جائے، نیز قسط کی تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کی شرط بھی نہ لگائی جائے تو پھر یہ معاملہ شرعاً درست ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الكبرى للبيهقي: (باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، رقم الحدیث: 10933، 571/5، ط: دار الكتب العلمية)
عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا
شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح، یلزم أن تکون المدۃ معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط... الخ
بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمھور الفقھاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیه عند العقد
بدائع الصنائع: (کتاب البیوع، 394/4، ط: زکریا)
و منہا: القبض في بیع المشتري المنقول، فلا یصح بیعه قبل القبض لما روي أن النبي علی السلام نہیٰ عن بیع ما لم یقبض.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (169/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع.......
ولكن جواز النسيئة في تبادل العملات المختلفة يمكن أن يتخذ حيلة لأكل الربا فمثلا إذا أراد المقرض أن يطالب بعشر ربيات على المائة المقرضة فإنه يبيع مئة ربية نسيئة بمقدار من الدولارات التي تساوي مئة وعشر ربيات وسدا لهذا الباب فإنه ينبغي أن يقيد جواز النسيئة في بيع العملات أن يقع ذلك على سعر سوق السائد عند العقد
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی