سوال:
مفتی صاحب! پٹی پر مسح کرنے کا طریقہ اور حکم ارشاد فرمادیں۔
جواب: 1) واضح رہے کہ ایک مرتبہ پٹی کے اکثر حصے پر مسح کرنے سے فرض ادا ہو جاتا ہے، پٹی پر مسح میں نہ تو پوری پٹی پر مسح کرنا شرط ہے اور نہ ہی تین مرتبہ مسح کرنا مسنون ہے۔ پٹی پر مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ گیلا کرکے ایک مرتبہ پوری پٹی یا اس کے اکثر حصے پر پھیر دیا جائے اور عضو کے مابقیہ حصہ، جس پر پٹی بندھی ہوئی نہ ہو، اس کو پانی سے دھولیا جائے۔
2) زخم یا موچ کی وجہ سے باندھی گئی پٹی پر مسح کرنا اس وقت جائز ہوتا ہے، جب پٹی کھول کر عضو دھونا یا عضو پر مسح کرنا نقصان دہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (42/1، ط: دار الکتب العلمیه)
(وهو) أي مسحها (مشروط بالعجز عن مسح) نفس الموضع (فإن قدر عليه فلا مسح) عليها. والحاصل لزوم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر، مسحه، فإن ضر مسحها، فإن ضر سقط أصلاً۔
و فیه ایضاً: (43/1، ط: دار الکتب العلمیه)
(ولا يشترط) في مسحها (استيعاب وتكرار في الاصح، فيكفي مسح أكثرها) مرة، به يفتى (وكذا لا يشترط) فيها (نية) اتفاقا بخلاف الخف في قول، وما في نسخ المتن رجع عنه المصنف في شرحه.
رد المحتار: (282/1، ط: دار الفکر)
(قَوْلُهُ فِي الْأَصَحِّ) قَيْدٌ لِعَدَمِ اشْتِرَاطِ الِاسْتِيعَابِ وَالتَّكْرَارِ: أَيْ بِخِلَافِ الْخُفِّ فَإِنَّهُ لَا يُشْتَرَطُ فِيهِ ذَلِكَ بِالِاتِّفَاقِ، وَهَذَا الْعَاشِرُ وَالْحَادِيَ عَشَرَ. وَأَفَادَ الرَّحْمَتِيُّ أَنَّ قَوْلَهُ وَتَكْرَارٌ مِنْ قَبِيلِ عَلَفْتُهَا تِبْنًا وَمَاءً بَارِدًا أَيْ وَلَا يُسَنُّ تَكْرَارٌ؛ لِأَنَّ مُقَابِلَ الْأَصَحِّ أَنَّهُ يُسَنُّ تَكْرَارُ الْمَسْحِ؛ لِأَنَّهُ بَدَلٌ عَنْ الْغَسْلِ وَالْغَسْلُ يُسَنُّ تَكْرَارُهُ فَكَذَا بَدَلُهُ. قَالَ فِي الْمِنَحِ: وَيُسَنُّ التَّثْلِيثُ عِنْدَ الْبَعْضِ إذَا لَمْ تَكُنْ الرَّأْسَ. اه وَهَذَا بِخِلَافِ مَسْحِ الْخُفِّ فَلَا يُسَنُّ تَكْرَارُهُ إجْمَاعًا (قَوْلُهُ فَيَكْفِي مَسْحُ أَكْثَرِهَا) لَمَّا كَانَ نَفْيُ الِاسْتِيعَابِ صَادِقًا بِمَسْحِ النِّصْفِ وَمَا دُونَهُ مَعَ أَنَّهُ لَا يَكْفِي بَيَّنَ مَا بِهِ الْكِفَايَةُ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی