عنوان: بیٹے کو کاروبار کا مالک بنادینا (21355-No)

سوال: میرے والد کا شہر کے بازار میں تھوک کا مشینری یعنی الیکٹرونکس کا بزنس تھا، والد صاحب کے ساتھ بڑے بھائی بھی دکان پہ جاتے تھے مگر دکان میں نفع کی بجائے نقصان ہوتا رہا، یہاں تک کہ والد صاحب کی اپنی راس بھی ختم ہوگئی اور قرضہ چڑھ گیا، والد صاحب نے اپنا کاروبار بمعہ قرضہ سب میرے حوالے کردیا، اللہ کی شان میں نے بہت نیک نیتی اور بہت محنت سے اس کام کو سنبھالا، اب دن دگنی رات چگنی ترقی والا معاملہ ہوگیا ہے، بڑا بھائی اور والد صاحب مجھ سے جیب خرچ لے لیتے، اس منافع کی رقم سے میں نے پہلے والد صاحب کا قرض بھی ادا کیا اور اپنے اور بڑے بھائی کے گھر کے اخراجات بھی اپنے ذمہ لیے، کیونکہ بڑا بھائی تو ساتھ شریک تھا اور کچھ جائیداد خریدی جو میں نے اپنے اور بڑے بھائی کے نام کروادی، اب والد صاحب وفات پاگئے ہیں، کیا وہ جائیداد وراثت میں گنی جائے گی یا میری ذاتی شمار ہوگی؟ جس دکان پہ کاروبار تھا اس کو وراثت میں شامل کیا ہے کیونکہ وہ والد صاحب کی تھی۔
تنقیح: محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا آپ نے اس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگایا تھا اور اگر لگایا تھا تو والد صاحب کے سامنے اس کی کیا وضاحت کی تھی؟ نیز اس کاروبار میں آپ کی کیا حیثیت تھی؟ ان تمام باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
دکان پہ والد صاحب کا سرمایہ مکمل ختم ہوگیا تھا بلکہ کافی زیادہ قرض چڑھ گیا تھا، والد صاحب نے مجھے بلا کر بڑے بھائی کے سامنے فرمایا تھا کہ دکان مکمل نقصان پہ جارہی ہے اور اگر دوکان پہ کچھ مال موجود ہے تو لوگوں کا ہے، آج سے یہ کاروبار اور اس کا نفع نقصان سب آپ کا ہے اور قرض بھی آپ نے اتارنا ہے، میں نے اسی مال کو جو لوگوں سے ادھار پہ آیا تھا، اسے اپنے ذمہ لے لیا اور اسی مال سے کاروبار کا سرکل چلایا، اللہ پاک نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ والد صاحب پہ جو قرض تھا وہ بھی اتر گیا اور اپنا سرمایہ بھی بن گیا۔

جواب: واضح رہے کہ اگر والد صاحب نے محض کاروبار میں نقصان کی تلافی اور کاروبار کو واپس صحیح راہ پر گامزن کرنے کے لیے کاروبار چھوٹے بیٹے کے حوالہ کیا ہو تو یہ سارا کاروبار والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگا، جہاں تک اس صورت میں کاروبار سے بنائے گئے گھر بیٹوں کے اپنے نام کرنے کی بات ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مکان بیٹوں نے والد صاحب کی اجازت اور رضامندی سے مکمل تصرف کے ساتھ اپنی ملکیت میں کروائے تھے تو یہ مکان بیٹوں کے شمار ہوں گے اور اگر والد صاحب کی اجازت اور رضامندی کے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر اپنے نام کروائے تھے تو اس صورت میں یہ مکان بھی والد صاحب ہی کی ملکیت شمار ہوں گے اور ان کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں تقسیم ہوں گے، اور اگر والد صاحب نے کاروبار مکمل ملکیت اور تصرف کے ساتھ چھوٹے بیٹے کو دے دیا ہو تو اس صورت میں چھوٹا بیٹا اس کاروبار اور اس سے اپنے لیے بنائی گئی جائیداد وغیرہ کا مالک ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (689/5، ط: دار الفکر)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.

شرح المجلة لخالد الاتاسی: (المادۃ: 837، 353/3- 354، ط: رشیدیة)
تنعقد الھبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض..... ركن الهبة الايجاب في حق الواهب، لانه تبرع فيتم من جهة المتبرع اما في حق الموهوب له فلا يتم الا بالقبول ثم لا ينفذ ملكه فيه الا بالقبض اه‍

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 76 Oct 07, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.