سوال:
کچھ عرصہ پہلے میری اور میری بیوی کی کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی، جس کی وجہ سے میں شدید غصے میں آ گیا اور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی غلطی ہوئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ چند منٹ(2 یا 3 منٹ) بعد اپنی والدہ کے ساتھ جھگڑے میں میرے منہ سے طلاق طلاق طلاق کے الفاظ نکل گئے، میں نے نہ ہی اپنی بیوی کو مخاطب کیا اور نہ ہی اپنی بیوی کی نسبت سے یہ الفاظ کہے، میں یہ حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا ارادہ یا نیت ہرگز اپنی بیوی کو خود سے جدا کرنے کی نہیں تھی۔ مفتی صاحب میرے بے روز گار ہونے کی وجہ سے والدہ نے کمرے میں آتے ہی اتی بدعائیں دینا شروع کر دی تھیں کہ مجھے ان کی باتوں میں اتنا شدید غصہ آیا کہ میری زبان اور میرا دل میرے کنٹرول میں نہیں رہا اور میرا سارہ جسم کانپنے لگا اس وقت میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے، میرے ساتھ اکثر ایسا ہو جاتا ہے کہ جب مجھے شدید غصہ آتا ہے تو میں اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا، اس وقت مجھے نہیں پتا چلتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا نفع یا نقصان ہو سکتا ہے، میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کے لئے بھی تیار ہوں کہ میری نیت یا ارادہ ہر گز اپنی بیوی کو خود سے جدا کرنے کا نہیں تھا۔ مفتی صاحب برائے مہربانی میری اس کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں میرا یہ مسئلہ حل فرما ئیں۔
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے صریح الفاظ میں نیت کا ہونا یا بیوی کی طرف نسبت کا صریح ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ کا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا جس میں آپ نے اسے صریح الفاظ میں طلاق کی دھمکی دی، پھر اس کے دو یا تین منٹ کے اندر ہی والدہ سے جھگڑا ہوگیا، جس میں آپ نے صریح الفاظ میں "طلاق طلاق طلاق" کہا، لہٰذا ان الفاظ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، کیونکہ یہ الفاظ بیوی کو طلاق دینے کے لیے بالکل صریح الفاظ ہیں، ان میں نیت کا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔
نیز طلاق دینے میں بیوی کی طرف صریح طور پر نسبت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ معنوی طور پر بھی اگر نسبت پائی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے، مذکورہ واقعہ کے سیاق و سباق اور قرائن سے طلاق کی نسبت کا معنوی طور پر آپ کی بیوی کی طرف ہونا پایا جاتا ہے، کیونکہ دو یا تین منٹ پہلے آپ اسے طلاق دینے کی دھمکی دے رہے تھے، لہذا طلاق کے معتبر ہونے میں اتنی نسبت کافی ہے، اس لیے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمت مغلّظہ ثابت ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (248/3، ط: دار الفکر)
وَلَا يَلْزَمُ كَوْنُ الْإِضَافَةِ صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِ؛ لِمَا فِي الْبَحْرِ لَوْ قَالَ: طَالِقٌ فَقِيلَ لَهُ مَنْ عَنَيْت؟ فَقَالَ امْرَأَتِي طَلُقَتْ امْرَأَتُهُ. اه. عَلَى أَنَّهُ فِي الْقُنْيَةِ قَالَ عَازِيًا إلَى الْبُرْهَانِ صَاحِبِ الْمُحِيطِ: رَجُلٌ دَعَتْهُ جَمَاعَةٌ إلَى شُرْبِ الْخَمْرِ فَقَالَ: إنِّي حَلَفْت بِالطَّلَاقِ أَنِّي لَا أَشْرَبُ وَكَانَ كَاذِبًا فِيهِ ثُمَّ شَرِبَ طَلُقَتْ. وَقَالَ صَاحِبُ التُّحْفَةِ: لَا تَطْلُقُ دِيَانَةً اه وَمَا فِي التُّحْفَةِ لَا يُخَالِفُ مَا قَبْلَهُ لِأَنَّ الْمُرَادَ طَلُقَتْ قَضَاءً فَقَطْ، لِمَا مَرَّ مِنْ أَنَّهُ لَوْ أَخْبَرَ بِالطَّلَاقِ كَاذِبًا لَا يَقَعُ دِيَانَةً بِخِلَافِ الْهَازِلِ،* فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِهِ وَإِنْ لَمْ يُضِفْهُ إلَى الْمَرْأَةِ صَرِيحًا*، نَعَمْ يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى مَا إذَا لَمْ يَقُلْ إنِّي أَرَدْت الْحَلِفَ بِطَلَاقِ غَيْرِهَا فَلَا يُخَالِفُ مَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الْبَحْرِ لَوْ قَالَ: امْرَأَةٌ طَالِقٌ أَوْ قَالَ طَلَّقْت امْرَأَةً ثَلَاثًا وَقَالَ لَمْ أَعْنِ امْرَأَتِي يُصَدَّقُ اه وَيُفْهَمُ مِنْهُ أَنَّهُ لَوْ لَمْ يَقُلْ ذَلِكَ تَطْلُقُ امْرَأَتُهُ، لِأَنَّ الْعَادَةَ أَنَّ مَنْ لَهُ امْرَأَةٌ إنَّمَا يَحْلِفُ بِطَلَاقِهَا لَا بِطَلَاقِ غَيْرِهَا،
فَقَوْلُهُ إنِّي حَلَفْت بِالطَّلَاقِ يَنْصَرِفُ إلَيْهَا مَا لَمْ يُرِدْ غَيْرَهَا لِأَنَّهُ يَحْتَمِلُهُ كَلَامُهُ، بِخِلَافِ مَا لَوْ ذَكَرَ اسْمَهَا أَوْ اسْمَ أَبِيهَا أَوْ أُمَّهَا أَوْ وَلَدَهَا فَقَالَ: عَمْرَةُ طَالِقٌ أَوْ بِنْتُ فُلَانٍ أَوْ بِنْتُ فُلَانَةَ أَوْ أُمُّ فُلَانٍ، فَقَدْ صَرَّحُوا بِأَنَّهَا تَطْلُقُ، وَأَنَّهُ لَوْ قَالَ: لَمْ أَعْنِ امْرَأَتِي لَا يُصَدَّقُ قَضَاءً إذَا كَانَتْ امْرَأَتُهُ كَمَا وَصَفَ كَمَا سَيَأْتِي قُبَيْلَ الْكِنَايَاتِ وَسَيَذْكُرُ قَرِيبًا أَنَّ مِنْ الْأَلْفَاظِ الْمُسْتَعْمَلَةِ: الطَّلَاقُ يَلْزَمُنِي، وَالْحَرَامُ يَلْزَمُنِي، وَعَلَيَّ الطَّلَاقُ، وَعَلَيَّ الْحَرَامُ، فَيَقَعُ بِلَا نِيَّةٍ لِلْعُرْفِ إلَخْ. فَأَوْقَعُوا بِهِ الطَّلَاقَ مَعَ أَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ إضَافَةُ الطَّلَاقِ إلَيْهَا صَرِيحًا، فَهَذَا مُؤَيِّدٌ لِمَا فِي الْقُنْيَةِ، وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يُصَدَّقُ فِي أَنَّهُ لَمْ يُرِدْ امْرَأَتَهُ لِلْعُرْفِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ (قَوْلُهُ وَمَا بِمَعْنَاهَا مِنْ الصَّرِيحِ) أَيْ مِثْلُ مَا سَيَذْكُرُهُ مِنْ نَحْوِ: كُونِي طَالِقًا وَاطَّلَّقِي وَيَا مُطَلَّقَةُ بِالتَّشْدِيدِ، وَكَذَا الْمُضَارِعُ إذَا غَلَبَ فِي الْحَالِ مِثْلُ أُطَلِّقُك كَمَا فِي الْبَحْرِ. قُلْت: وَمِنْهُ فِي عُرْفِ زَمَانِنَا: تَكُونِي طَالِقًا، وَمِنْهُ: خُذِي طَلَاقَك فَقَالَتْ أَخَذْت، فَقَدْ صَرَّحَ الْوُقُوعَ بِهِ بِلَا اشْتِرَاطِ نِيَّةٍ كَمَا فِي الْفَتْحِ، وَكَذَالَايُشْتَرَطُ قَوْلُهَا أَخَذْت كَمَا فِي الْبَحْرِ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی