سوال:
1)میرے والد کا انتقال 05 ستمبر 2024 کو ہوا، ان کی پنشن کا کیا ہوگا؟
2) ہماری سوتیلی ماں کے ساتھ اب اور عدت کے بعد ہمارا کیا تعلق ہے؟
3)ہماری سوتیلی والدہ نے ہمارے والد سے زبردستی اپنے نام پر پہلا مدر ہاؤس بھی رجسٹر کرایا ہے، اب اس گھر کا کیا ہوگا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ پینشن کی رقم متعلقہ ادارے کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے، لہذا پینشن کی رقم ادارہ جس کے نام پر جاری کرے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے، اس میں میراث جاری نہیں ہوتی ہے۔
2) جس طرح والد کی زندگی میں سوتیلی والدہ اولاد کے لیے محرم تھی، اسی طرح والد کے انتقال کے بعد بھی محرم ہوں گی، اور جس طرح سگی والدہ کے ساتھ اچھے اخلاق، حسنِ سلوک اور عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے، اسی طرح سوتیلی والدہ کے ساتھ بھی اخلاق، حسنِ سلوک اور عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے۔
3) شرعاً ہبہ (Gift) کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالک بنا کر دیا جائے اور جس کو ہبہ کیا جارہا ہے، وہ اس پر مالکانہ قبضہ بھی کر لے، تب ہبہ تام (مکمل) ہوتا ہے، قبضہ دیے بغیر صرف نام کر دینے سے ہبہ (Gift) تام نہیں ہوتا، اس اعتبار سے اگر آپ کے والد نے اپنی دوسری بیوی کے نام گھر کرنے کے ساتھ ساتھ مالکانہ قبضہ و تصرف بھی دے دیا تھا، تب تو وہ گھر ان (آپ کی سوتیلی والدہ) کى ملکیت ہوگیا ہے، لیکن اگر قبضہ نہیں دیا تھا تو وہ گھر تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة 23)
وَلاَ تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَائُکُمْ... الخ
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن الإرث إنمّا یجري في المتروک من ملک أو حق للمورث علی ماقال علیہ الصلاۃ والسلام من ترک مالا أو حقا فہو لورثتہ۔
الدر المختار: (51/5، ط: دار الفکر)
الملک مامن شانہ أن یتصرف فیہ بوصف الاختصاص۔
التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة و ما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی