سوال:
ہمارے علاقہ ضلع مستونگ میں منگنی میں لڑکی اور لڑکے کی طرف سے وکیل اور ولی تین مرتبہ ایجاب و قبول کرتے ہیں، مولوی صاحب بعض وقت خطبہ بھی پڑھتا ہے, سب گواہان کے سامنے معاملہ طے پاتا ہے اور حقِ مہر بھی طے کرتے ہیں، لیکن شادی میں دوبارہ حق مہر مقرر ہوتا ہے، ایجاب اور قبول اور خطبہ ہوتا ہے، حال ہی میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ لڑکی والوں نے منگنی کے بعد رشتے سے انکار کیا اور ایک مولوی صاحب سے اس کے طلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا نکاح نہیں ہوا، لہذا طلاق کی ضرورت نہیں، جبکہ دوسرے مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ منگنی میں ایجاب و قبول ہوچکا ہے لہذا نکاح منعقد ہوگیا ہے۔ اب پوچھنا ہے کہ اس طرح کی منگنی سے نکاح منعقد ہوتا ہے یا نہیں؟ نیز ہمارے ہاں شادی کے موقع پر بروئی زبان میں جو الفاظ ایجاب و قبول کے لیے بولے جاتے ہے، وہی الفاظ منگنی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ جس کا اردو ترجمہ بنتا ہے میں نے اپنی لڑکی دے دیی، لڑکے کا وکیل کہتا ہے کہ بطور وکالت ہم نے قبول کرلیا۔ جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔
تنقیح:آپ نے لکھا ہے کہ "منگنی میں لڑکی اور لڑکے کی طرف سے وکیل اور ولی تین مرتبہ ایجاب و قبول کرتے ہیں"، برائے مہربانی یہ وضاحت فرمائیں کہ اس معاملے میں ایجاب و قبول کے لیے کیا الفاظ بولے گئے تھے؟ اصل الفاظ کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح: جس کا اردو ترجمہ بنتا ہے میں نے اپنی لڑکی دے دیی، لڑکے کا وکیل کہتا ہے کہ بطور وکالت ہم نے قبول کرلیا۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر واقعتاً لڑکی بالغہ ہے اور اس سے اجازت لے کر باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں ایسے الفاظ کے ساتھ ایجاب و قبول ہوا ہو جو صراحتاً یا معناً نکاح پر دلالت کرتے ہوں تو ان الفاظ کے ساتھ نکاح منعقد ہوگیا تھا، اب اگر لڑکی والے اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس نکاح کو باقاعدہ خلع یا طلاق کے بغیر یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔
نیز اس میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ لڑکے والوں کو درست جملہ یوں کہنا چاہیے کہ "بطورِ وکیل لڑکے کی جانب سے ہم نے قبول کرلیا"۔
باقی جن مولوی صاحب نے یہ کہا ہے کہ اس سے نکاح نہیں ہوا، تو اس کی وجہ بظاہر یہ ہوسکتی ہے کہ "منگنی" سے متعلق ان سے استفسار کیا گیا ہوگا اور ان کو علاقے کا عرف اور اس میں استعمال ہونے والے الفاط کی تفصیل معلوم نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (185/1، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: "النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی