سوال:
میرے خاوند چار سال پہلے فوت ہوئے، انہوں نے وراثت میں دس مرلے کا ایک پلاٹ اور نقد رقم ایک کروڑ روپے چھوڑی ہے، جبکہ ایک اور آٹھ مرلہ کا پلاٹ انہوں نے مجھے لیکر دیا تھا جو انہوں نے میرے نام رجسٹری کرادیا تھا، ان کے درج ذیل ورثاء ہیں: والدہ، تین بھائی، دو بہنیں، ایک بیوہ اور تین بیٹیاں۔ وفات کے بعد والدہ اور تینوں بھائیوں نے عدالت میں یہ بیان دے دیا تھا کہ ہم مرحوم کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں لیتے، ان کی بیٹیوں کے لیے چھوڑتے ہیں، کیونکہ ان کا بھائی نہیں ہے، اس کا تحریری ثبوت موجود ہے، البتہ دو بہنوں میں سے ایک نے زبانی طور پر معاف کردیا تھا اور دوسری بہن نے کچھ نہیں کہا تھا، اب وہ دوسری بہن اپنے حصہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس بہن کا بھائی کی جائیداد میں سے حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور اگر بنتا ہے تو کتنا بنتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جبکہ دوسری بہن نے اپنا حصہ معاف نہیں کیا تھا اور اب وہ مطالبہ بھی کررہی ہے، لہذا ورثاء پر بہن کو اس کا شرعی حصہ دینا لازم ہے، نیز پوچھی گئی صورت میں بہن کو اپنے بھائی کی میراث میں سے %0.52 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (505/7، ط: سعید)
"الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
الدر المختار مع رد المحتار: (260/6، ط: دار الفکر)
وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا.
درر الحكام في شرح مجلة الاحكام: (باب في بيان القسمة، المادة 1130، 128/3، ط: دار الجيل)
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی