عنوان: اے عائشہ! تم مجھ سے پہلے مر گئیں تو میں تمہیں غسل دوں گا۔۔۔الخ حدیث کی وضاحت(215-No)

سوال: میں نے ایک حدیث سنی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والسلام نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اگر تم مجھ سے پہلے مرجاؤ تو میں تمہارے کو غسل دوں گا اور کفن دوں گا، اسی طرح حضرت علی سے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا تو کیا مرد اپنی بیوی کو مرنے کے بعد غسل دے سکتا ہے اگر نہیں دے سکتا تواس حدیث کا کیا جواب ہے؟

جواب: شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا، جبکہ بیوی خاوند کو غسل دے سکتی ہے، اس کی وجہ فقہاء نے یہ بیان کی ہے کہ عورت کے مرتے ہی خاوند سے عقد نکاح ختم ہو جاتا ہے، جبکہ خاوند کے انتقال پر بالکلیہ نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ من وجہ نکاح عدت کے ختم ہونے تک باقی رہتا ہے، اسی وجہ سے عورت اپنی عدت کے دوران کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کرسکتی۔
واضح رہے کہ یہ مسئلہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہے، جبکہ ائمہ ثلاثہ (امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل) کے نزدیک شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک وہی دلائل ہیں جو آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیے ہیں۔
ان میں سے ایک دلیل مسندِ احمد میں ایک روایت ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے سر میں درد تھا میں نے کہا واراساہ (ہائے میرا سر) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بهی فرمایا (واراساہ ) یا عائشة ماضرک ان مت قبلی فغسلتک وکفنتک (اے عائشہ اگر تو مجھ سے پہلے مرگئی تو میں تجهے غسل دونگا اور کفن دونگا)
اور دوسری دليل عن فاطمة قالت لاسماء بنت عمیس یا أسماء اذا مت فاغسلینی انت و علی فغسلاها۔
حضرت فاطمہ نے اسماء بنت عمیس سے کہا کہ جب میں مرجاوں تو تم اور علی مجهے غسل دینا، پس علی اور اسماء نے انہیں غسل دیا۔
احناف کے نزدیک ان احادیث کے تین جوابات ہیں۔
(1) امام بخاریؒ نے بهی اس قصہ کو نقل فرمایا ہے اور اس میں یہ زیادتی ```غسلتک``(میں تجهے غسل دونگا ) ذکر نہیں کی ہے، البتہ مسند احمد میں "غسلتک" کا اضافہ ملتا ہے، لیکن یہ احادیث ضعیف ہیں۔
(2) آپ علیہ السلام کے قول "غسلتک" میں غسل دینے کی ذمہ داری لینے کا بھی احتمال ہے اور خود سے غسل دینے کا بهی احتمال ہے اور آپ علیہ السلام کی عادت کے ذریعہ سے یہ بات معلوم ہے کہ آپ بذات خود کسی کو غسل نہیں دیتے تھے، لہٰذا اسے غسل کی ذمہ داری لینے پر محمول کیا جائے گا نہ کہ بذات خود غسل دینے پر۔
(3) اور اگر غسل دینا مراد لیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شمار ہوگا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کے ساتھ آپ کا نکاح ختم نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتقال کے بعد ازواجِ مطہرات کے ساتھ کسی کے لیے نکاح کرنا جائز نہیں تها، جبکہ دوسرے مسلمان مردوں کے نکاح انتقال کے بعد ختم ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے وہ اپنی عورتوں کے حق میں اجنبی ہوجاتے ہیں، اس لیے شوہر کے لیے بیوی کو مرنے کے بعد غسل دینا جائز نہیں ہے۔
حضرت علی کا حضرت فاطمہ کو غسل دینے والی روایت بهی بہت ضعیف ہے، تاہم اگر اس کو مان لیا جائے، تو اس سے بهی اہتمام اور انتظام مراد ہوگا یا خاصیت پر محمول ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسند احمد: (رقم الحديث: 25908، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن عائشة قالت: رجع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم من جنازة بالبقيع، وأنا أجد صداعا في رأسي، وأنا أقول: وارأساه قال: بل أنا وارأساه ثم (2) قال: " ما ضرك لو مت قبلي، فغسلتك وكفنتك، ثم صليت عليك، ودفنتك؟ " قلت: لكني أو لكأني بك، والله لو فعلت ذلك لقد رجعت إلى بيتي فأعرست فيه ببعض نسائك، قالت: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم بدئ في وجعه الذي مات فيه.

نصب الرایة: (252/2، ط: مؤسسة الریان للطباعة و النشر)
وكذلك قال في "العلل المتناهية"، إلا أنه زاد: ثم إن أحمد. والشافعي يحتجان في جواز غسل الرجل زوجته، بأن عليا غسل فاطمة رضي الله عنها، ردا على أبي حنيفة رضي الله عنه، انتهى. قال صاحب "التنقيح": عاصم بن علي الواسطي روى عنه البخاري في "صحيحه". ونوح بن يزيد هو المؤدب، صدوق ثقة، ولا نعلم أحدا رماه بالتشيع، والحكم بن أسلم، قال فيه أبو حاتم الرازي: قدري صدوق، انتهى.
قلت: ورواه عبد الرزاق في "مصنفه" بسند ضعيف. ومنقطع، لكن ليس فيه هيئة الاضطجاع، فقال: أخبرنا معمر عن عبد الله بن محمد بن عقيل أن فاطمة لما حضرتها الوفاة، أمرت عليا فوضع لها غسلا، فاغتسلت، وتطهرت، ودعت بثياب أكفانها، فلبستها، ومست من الحنوط، ثم أمرت عليا أن لا تكشف إذا هي قبضت، وأن تدرج كما هي في أكفانها، فقلت له: هل علمت أحدا فعل نحو ذلك؟ قال: نعم، كثير بن عباس1، وكتب في أطراف أكفانه: يشهد كثير بن عباس أن لاإله إلا الله انتهى. ومن طريق عبد الرزاق، رواه الطبراني في "معجمه" والحديث الذي أشار إليه ابن الجوزي في غسل علي لفاطمة، رواه الحافظ أبو نعيم في "كتاب الحلية في ترجمة فاطمة رضي الله عنها"، قال: حدثنا إبراهيم بن عبد الله ثنا أبو العباس السراج ثنا قتيبة بن سعيد ثنا محمد بن موسى المخزومي عن عون بن محمد بن علي بن أبي طالب عن أمه، أم جعفر بنت محمد بن جعفر أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: يا أسماء إني أستقبح ما يفعل بالنساء، إنه يطرح على المرأة الثوب فيصفها، فقالت أسماء: يا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أريك شيئا رأيته بالحبشة؟ فدعت بجرائد رطبة فلوتها، ثم طرحت عليها ثوبا، فقالت فاطمة: ما أحسن هذا وأجمله، يعرف به المرأة من الرجل، فإذا أنا مت فاغسليني أنت. وعلي، فلما توفيت غسلها علي. وأسماء، ورواه الدارقطني في "سننه"2 عن أسماء أن فاطمة أوصت أن يغسلها زوجها علي. وأسماء، فغسلاها، وينظر. واستدل النووي أيضا في "الخلاصة" للشافعي بحديث أخرجه ابن ماجه3، وأحمد، والدارقطني، ثم البيهقي في "سننهما" عن محمد بن إسحاق عن أيوب بن علقمة عن عائشة، قالت: رجع النبي صلى الله عليه وسلم من البقيع، وأنا أجد صداعا في رأسي، وأقول: وارأساه، فقال: بل أنا يا عائشة، "وارأساه"، ثم قال: "ما ضرك لو مت قبلي، فغسلتك. وكفنتك. وصليت عليك. ودفنتك؟، انتهى. وهذا ليس فيه حجة. فإن هذا اللفظ لا يقتضي المباشرة، فقد يأمر بغسلها. الثاني: أنه حديث ضعيف، قال النووي: فيه محمد بن إسحاق، وهو مدلس، وقد عنعن، انتهى.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 4890 Dec 28, 2018
Ay ae Aisha Ayesha tum mujh se pehlay mar gain to mai yumhai ghusul donga Hadees ki wazahat/ae ayesha tm mujh se pehly mar gai to me / mein me ghusal don ga, O Ayesha, if you die before me, I will give you a ghusl, Clarification of Hadees Hadith

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.