سوال:
مفتی صاحب ! ایک سوال یہ ہے کہ بینک کا کریڈٹ کارڈ بنوا سکتے ہیں؟ اسکی ایک ٹائم لیمیڈ ہوتی ہے کہ 45 یا 50 دنوں میں آپ پیسے واپس ادا کردیں تو سود کے زمرے میں نہیں جاتا تو کیا کارڈ بنوا سکتے ہیں ؟
جزاک اللہ
جواب: واضح ہو کہ کریڈٹ کارڈ ہولڈر کا کوئی اکاؤنٹ بینک میں نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ معاہدہ ہی ادھار پر سود دینے کا ہوتا ہے۔ اس معاہدہ میں اگرچہ بینک ایک متعین مدت فراہم کرتا ہے کہ اگر اس متعین مدت کے اندر ادائیگی کردے تو سود نہیں دینا پڑے گا، لیکن اصلاً معاہدہ سود کی بنیاد پر ہوتا ہے اور سود کی ادائیگی کا وعدہ بھی کریڈٹ کارڈ ہولڈر کو کرنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اس میں تجدید مدت (Rescheduling) کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے، جس سے ادائیگی کی مدت بڑھ جاتی ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ شرح سود میں اضافہ ہوجاتا ہے اور بعض صورتوں میں اضافی رقم لے جاتی ہے۔
چونکہ اس میں معاہدہ اصلاً سود کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جس طرح سود لینا اور دینا منع ہے، اسی طرح سود دینے کا معاہدہ اور وعدہ کرنا بھی منع ہے۔
اس وجہ سے اس کا حکم یہ ہے کہ اس کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ یا ادائیگی کا کوئی اور متبادل طریقہ نہ ہو تو کریڈٹ کارڈ کو اس شرط کے ساتھ استعمال کرنے کی گنجائش ہے کہ کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کردے اور کسی بھی وقت سود عائد ہونے کا کوئی بھی امکان باقی نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الآیۃ: 130)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
المعايير الشرعیۃ:
(1 / 11) بطاقة الائتمان المتجدد :(Credit Card) خصائص هذه البطاقة:
( أ ) هذه البطاقة أداة ائتمان في حدود سقف متجدد على فترات يحددها مصدر البطاقة، وهي أداة وفاء أيضًا.
( ب ) يستطيع حاملها تسديد أثمان السلع والخدمات، والسحب نقدا، في حدود سقف الائتمان الممنوح.
( ج ) في حالة الشراء للسلع أو الحصول على الخدمات يمنح حاملها فترة سماح يسدد خلالها المستحق عليه بدون فوائد، كما تسمح له بتأجيل السداد خلال فترة محددة مع ترتب فوائد عليه. أما في حالة السحب النقدي فلا يمنح حاملها فترة سماح.
( د ) ينطبق على هذه البطاقة ما جاء في البند 2/2 ه،۔۔۔۔۔۔ولا يجوز للمؤسسات إصدار بطاقات الائتمان ذات الدين المتجدد الذي يسدده حامل البطاقة على أقساط آجلة بفوائد ربوية.
البحر الرائق: (کتاب البیع، باب المتفرقات، 312/6، ط: زکریا)
وما لا یبطل بالشرط الفاسد القرض بأن أقرضتک ہذہ المأة بشرط أن تخدمني شہرًا مثلاً فإنہ لا یبطل بہذا الشرط وذلک لأن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنہ یختص بالمبادلة المالیّة، وہذہ العقود کلہا لیست بمعاوضة مالیة فلا توٴثر فیہا الشروط الفاسدة الخ
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1902/57
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی