سوال:
میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ میں جہاں پر کام کرتا ہوں وہاں پر کچھ لوگ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے ہیں تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ جماعت کرا لی جائے تو میں نے جماعت کرانے کی کوشش کی ہے، الحمدللہ! فجر اور ظہر کی جماعت کرا رہا ہوں، لیکن شریعت کے مطابق میری داڑھی مکمل نہیں ہے کیا میں نماز پڑھا سکتا ہوں؟ اگر میرے پیچھے مقتدی کی نماز ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ تو میں یہ نماز پڑھانا چھوڑ دوں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں ایک اہم حکمِ شرعی (باجماعت نماز) کی تعمیل کے لیے آپ کا اقدام انتہائی مستحسن ہے، لیکن مردوں کے لیے اصل حکم مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کا ہے، لہذا آپ لوگوں کو کسی قریبی مسجد میں جاکر باجماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ اگر قریب میں کوئی مسجد نہیں ہے یا کام والی جگہ میں کبھی نماز پڑھنے کی نوبت آجائے تو چونکہ داڑھی منڈے یا شرعی مقدار سے کم داڑھی رکھنے والے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے اس صورت میں کسی با شرع آدمی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی ایسا شخص میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کے لیے تنہا نماز پڑھنے کے بجائے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
سنن ابن ماجۃ: (رقم الحدیث: 1413، 453/1، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ)
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الرجل في بيته بصلاة، وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاة، وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخمس مائة صلاة، وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة، وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة، وصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة»
رد المحتار: (560/1، ط: دار الفکر)
وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم.
فیه ايضًا: (559/1، ط: دار الفكر)
فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی