سوال:
میرا سوال ہے کہ میرے دونوں بھائیوں کے گھر شادی کے ساتھ مہینے بعد بیٹا پیدا ہوا، دونوں بھائیوں کے ستمائی بچے پیدا ہوئے اور بہت بیمار تھے، شیشے میں رکھے ہوئے تھے تو میری والدہ نے منت مانگی کہ ایک ایک بچے کے میں دس دس روزے رکھوں گی بچے ٹھیک ہو جائیں۔ الحمدللہ! بچے ٹھیک ہو چکے ہیں، میری والدہ دل، شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں، ہم گھر کے 10 لوگ ہیں تو کیا ہم 10 لوگ ایک دن سب روزہ رکھیں تو کیا وہ 10 روزے ہو جائیں گے اور دوسرے دن پھر 10 روزے رکھیں تو کیا 20 روزے کی منت پوری ہو جائے گی یا وہ روزے والدہ کو ہی رکھنے ہوں گے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ آپ کی والدہ نے ہر بچے کی صحتیابی پر دس روزوں کی نذر مانی ہے، لہذا اب دونوں بچوں کی صحتیابی کے بعد آپ کی والدہ کے ذمہ بیس روزے رکھنا لازم ہے، البتہ اگر وہ سوال میں ذکر کردہ امراض کی وجہ سے روزے رکھنے کی قدرت نہ رکھتی ہوں اور آئندہ بھی صحتیابی کی کوئی امید نہ ہو تو ہر روزے کے بدلے ایک فدیہ دے دیں۔
ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، یعنی ہر روزے کے بدلے پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ادا کریں، جو کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو دیدی جائے، البتہ یہ واضح رہے کہ فدیہ دینے کے بجائے اگر کوئی شخص آپ کی والدہ کی طرف سے روزے رکھے گا تو یہ روزے ان کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (425/2، ط: دار الفكر)
(وإن صام أو صلى عنه) الولي (لا) لحديث النسائي «لا يصوم أحد عن أحد ولا يصلي أحد عن أحد ولكن يطعم عنه وليه».
و فيه أيضاً: (427/2، ط: دار الفكر)
(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا.
(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اه وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی