سوال:
ایک لڑکی کی شادی ہوئی، اس کا خاوند نامرد تھا، علاج کے باوجود بھی وہ جماع کے قابل نہ ہوا، شادی کو چار پانچ سال کا عرصہ ہوگیا لڑکی کے ورثاء نے مجبور ہو کر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے طلاق نہیں دی، خاوند نے رقم کا مطالبہ کیا کہ پیسے لیکر طلاق دونگا، پیسے لینے کے بعد بھی طلاق نہیں دی، لڑکی والے بالکل دیہاتی اور ان پڑھ تھے، انہوں نے لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کر دیا پھر عدالت میں بھی درخواست دے دی، دوسری جگہ نکاح ہونے کے دس مہینے کے بعد پہلے خاوند نے عدالت میں جج کے حکم پر بیوی کو طلاق دی، لیکن لڑکی بدستور دوسرے خاوند کے پاس رہی، طلاق کے بعد دو حیض آئے اور لڑکی کو دوسرے خاوند سے حمل ٹھہر گیا، اور یہ حمل مہینہ سے کم کا ہے، اب لڑکی والوں کو معلوم ہوا کہ دوسرا نکاح نہیں ہوا، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس دوسرے خاوند سے نکاح صحیح ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ وہ عورت اسی حالت میں دوبارہ نکاح پڑھائے یا حمل گرا کر ایک اور حیض کا انتظار کرے یا ازسر نو تین حیض دوبارہ شمار ہوں گے؟ یہ بات واضح رہے کہ وہ وضع حمل تک خاوند سے جدا رہنے پر تیار نہیں ہوگی۔
جواب: واضح رہے کہ طلاق کی عدت کے دوران عورت کے حاملہ ہونے کی وجہ سے اس کی عدت تین ماہواریوں کے بجائے وضع حمل (بچے کی پیدائش) تک منتقل ہوجاتی ہے، وضع حمل کے بعد کسی اور کے ساتھ اس کا نکاح کرنا درست ہوتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں جب تک مذکورہ عورت کا وضع حمل نہیں ہوتا یا ایک ماہ کا حمل ساقط کرانے کی صورت میں نئے سرے سے دوبارہ تین ماہواریاں نہیں گزرتیں، اس وقت تک اس کے لیے اس دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرنا یا نکاح کے بغیر اکھٹے رہنا ناجائز ہے، ابھی تک جتنا عرصہ دونوں نے ایک ساتھ گزارا ہے، ناجائز اور حرام فعل کا ارتکاب کیا ہے، لہذا ان پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل شنیع پر اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرکے فوراً ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التفسير المظهري: (64/2، ط: مكتبة الرشيدية)
والمحصنات من النساء عطف على أمهاتكم يعنى حرمت عليكم المحصنات من النساء اى ذوات الأزواج لا يحل للغير نكاحهن ما لم يمت زوجها او يطلقها وتنقضى عدتها من الوفاة او الطلاق.
الهندية: (280/1، ط: دار الفكر)
لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج.
رد المحتار: (511/3، ط: دار الفكر)
وفي الحاوي الزاهدي: إذا حبلت المعتدة وولدت تنقضي به العدة سواء كان من المطلق، أو من زنا. وعنه لا تنقضي به من زنا ولو كان الحبل بنكاح فاسد وولدت تنقضي به العدة إن ولدت بعد المتاركة لا قبلها اه لكن يأتي قريبا فيمن حبلت بعد موت زوجها الصبي أن لها عدة الموت، فالمراد بقوله إذا حبلت المعتدة معتدة الطلاق بقرينة ما بعده تأمل، ثم رأيت في النهر عند مسألة الغار الآتية.
قال: واعلم أن المعتدة لو حملت في عدتها ذكر الكرخي أن عدتها وضع الحمل ولم يفصل، والذي ذكره محمد أن هذا في عدة الطلاق، أما في عدة الوفاة فلا تتغير بالحمل وهو الصحيح كذا في البدائع اه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی