سوال:
محترم جناب مولانا صاحب دامت برکاتہم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امید ہے کہ آپ خیریت اور عافیت سے ہوں گے۔
میں آپ کی خدمت میں ایک اہم شرعی مسئلے کے بارے میں رہنمائی کے لیے رجوع کر رہا ہوں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک لڑکی کے لیے رشتہ بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن کے والد محترم اسلام آباد میں ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں، ہمیں شرعی لحاظ سے یہ جاننا ہے کہ آیا ایسے خاندان میں رشتہ کرنا درست اور جائز ہے؟ جبکہ لڑکی کے والد کی آمدنی انشورنس کمپنی کی ملازمت سےحاصل ہوتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں واضح فتویٰ عطا فرمائیں تاکہ ہم شرعی اصولوں کے مطابق درست فیصلہ کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
جواب: واضح رہے کہ جس شخص کی کمائی حرام کی ہو، اس کی بیٹی سے نکاح کرنا شرعاً جائز ہے، لیکن اس شخص کی کمائی چونکہ حرام ہے، اس لیے اس کا ہدیہ وغیرہ قبول نہ کیا جائے اور اسے حلال رقم سے شادی کے مصارف پورے کرنا کا مشورہ دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (267/1)
ﻭﺃﻣﺎ ﺷﺮﻭﻃﻪ) ﻓﻤﻨﻬﺎ اﻟﻌﻘﻞ ﻭاﻟﺒﻠﻮﻍ ﻭاﻟﺤﺮﻳﺔ ﻓﻲ اﻟﻌﺎﻗﺪ ﺇﻻ ﺃﻥ اﻷﻭﻝ ﺷﺮﻁ اﻻﻧﻌﻘﺎﺩ ﻓﻼ ﻳﻨﻌﻘﺪ ﻧﻜﺎﺡ اﻟﻤﺠﻨﻮﻥ ﻭاﻟﺼﺒﻲ اﻟﺬﻱ ﻻ ﻳ ﻌﻘﻞ ﻭاﻷﺧﻴﺮاﻥ ﺷﺮﻃﺎ اﻟﻨﻔﺎﺫ... (ﻭﻣﻨﻬﺎ) اﻟﻤﺤﻞ اﻟﻘﺎﺑﻞ ﻭﻫﻲ اﻟﻤﺮﺃﺓ اﻟﺘﻲ ﺃﺣﻠﻬﺎ اﻟﺸﺮﻉ ﺑﺎﻟﻨﻜﺎﺡ، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺎﻳﺔ.
و فيه أيضا: (342/5)
ﺃﻫﺪﻯ ﺇﻟﻰ ﺭﺟﻞ ﺷﻴﺌﺎ ﺃﻭ ﺃﺿﺎﻓﻪ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺎﻟﻪ ﻣﻦ اﻟﺤﻼﻝ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺇﻻ ﺃﻥ ﻳﻌﻠﻢ ﺑﺄﻧﻪ ﺣﺮاﻡ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻐﺎﻟﺐ ﻫﻮ اﻟﺤﺮاﻡ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻘﺒﻞ اﻟﻬﺪﻳﺔ، ﻭﻻ ﻳﺄﻛﻞ اﻟﻄﻌﺎﻡ ﺇﻻ ﺃﻥ ﻳﺨﺒﺮﻩ ﺑﺄﻧﻪ ﺣﻼﻝ ﻭﺭﺛﺘﻪ ﺃﻭ اﺳﺘﻘﺮﺿﺘﻪ ﻣﻦ ﺭﺟﻞ، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻴﻨﺎﺑﻴﻊ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی