resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مرد (منگیتر) کے ظاہری طور پر پُرکشِش نہ ہونے کی وجہ سے منگنی توڑنا

(33576-No)

سوال: میں کیوبیک میں رہنے والی ایک نوجوان مسلمان عورت ہوں، حال ہی میں میرے خاندان خاص طور پر میرے ماموں اور میری والدہ نے میرا رشتہ ایک لڑکے سے کروایا، پہلی ملاقات سے ہی مجھے اس کے لیے کوئی جسمانی کشش محسوس نہیں ہوئی، اور میں نے یہ بات اپنی والدہ کو بتا دی، لیکن انہوں نے میری بات کو نظر انداز کر دیا اور بار بار یہی کہتی رہیں کہ وہ ایک اچھا مسلمان اور ذمہ دار انسان ہے۔
میری کزن نے بھی مجھے اس رشتے کے لیے دباؤ ڈالا، آخرکار خاندان کے سخت دباؤ کے تحت میں نے یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ “چلو، اسے جان لیتی ہوں۔” بعد میں مجھے بتایا گیا کہ میں اس سے تب تک نہیں مل سکتی جب تک باقاعدہ منگنی نہ ہو جائے، لہٰذا میں صرف خاندان کو خوش کرنے کے لیے بغیر کسی حقیقی رضامندی کے منگنی کرنے پر مجبور ہو گئی، اب وہ دسمبر میں شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن میرا دل کبھی بھی اس شادی کے لیے مطمئن نہیں ہوا۔
میں نے استخارہ کیا اور تہجد میں دعا بھی کی، مگر مجھے نہ سکون ملا، نہ کوئی واضح اشارہ، بلکہ مجھے تناؤ، خوف، جذباتی بےگانگی، مکمل بےرغبتی محسوس ہو رہی ہے، اور میں اس کے ساتھ اپنی زندگی کا کوئی مستقبل نہیں دیکھ پاتی۔
میرا خاندان بار بار مجھے کہتا ہے کہ اگر میں اس رشتے سے انکار کرتی ہوں تو اللہ مجھے سزا دے گا اور میں ایک “ناشکری” ہوں گی جو ایک اچھے انسان کو ٹھکرا رہی ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے اس سے بہتر کوئی نہیں ملے گا اور میں ہمیشہ پچھتاؤں گی۔ اس نے مجھے بہت زیادہ گناہ، دباؤ اور ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
میری ماں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میں منگنی ختم کرتی ہوں تو وہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ گھر چھوڑ دیں گی اور میرے ساتھ نہیں رہیں گی—جس سے میں بہت اداس اور کنفیوژ ہو گئی ہوں، میں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ مہر کے بارے میں فیصلہ بھی میرے بغیر ہوا، میرے والد کی بیوی نے یہ فیصلہ کیا اور کل مہر میں سے مجھے صرف تھوڑا سا حصہ ملا، حالانکہ اسلام میں پورا مہر صرف دلہن کا حق ہوتا ہے۔
اس وقت میں اپنی والدہ کا احترام کرنا چاہتی ہوں، مگر مجھے اس شادی کے بارے میں نہ دل کا سکون ہے، نہ کوئی یقین،
میں صحیح اسلامی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہوں، زبردستی یا ناخوشگوار شادی سے بچنا چاہتی ہوں اور جاننا چاہتی ہوں کہ اللہ مجھ سے کیا چاہتا ہے۔
میرے سوالات یہ ہیں:
1) کیا اسلام کے مطابق مجھے منگنی ختم کرنے کا حق حاصل ہے؟
2) میں اپنی والدہ کو احترام کے ساتھ یہ بات کیسے سمجھاؤں؟
3) مہر کے معاملے کا جو طریقہ اپنایا گیا، کیا وہ درست ہے؟
4) میں کون سا راستہ اختیار کروں جو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہو؟
5) اور کیا جسمانی کشش کی کمی منگنی ختم کرنے کے لیے ایک جائز وجہ ہے؟
جزاک اللہ خیراً و بارک اللہ فیک

جواب: واضح رہے کہ منگنی نکاح نہیں ہے، بلکہ مستقبل میں نکاح کرنے کا وعدہ ہے، اور وعدہ کے بارے میں قرآن وسنت کی عمومی تعلیمات یہ ہیں کہ وعدہ پورا کیا جائے اور حتی الامکان اس کی خلاف ورزی سے بچا جائے، لہذا دیانتاً وعدہ پورا کرنا واجب ہے، اور بلا عذر اس کو توڑنا گناہ ہے، البتہ کسی عذر (خواہ شرعی ہو یا طبعی) کی وجہ سے وعدہ توڑنے کی گنجائش ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر منگنی کے موقع پر باقاعدہ نکاح نہیں ہوا تھا، بلکہ صرف مستقبل میں نکاح کا وعدہ ہوا تھا تو آپ آزاد ہیں، مذکورہ شخص کے نکاح میں نہیں ہیں، البتہ چونکہ آپ نے مذکورہ شخص کے ساتھ نکاح کا وعدہ کیا ہے، اس لیے اس وعدہ کی حتی الامکان پاسداری آپ پر لازم ہے، مرد کا ظاہری طور پر پرکشش نہ ہونا کوئی معقول عذر نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر وعدہ خلافی کی جائے اور منگنی توڑ دی جائے، خاص کر جب خاندان کے بزرگ اس لڑکے کی حسنِ سیرت کی گواہی بھی دے رہے ہیں، البتہ مہر کے بارے میں ان کا فیصلہ درست نہیں ہے، بلکہ آپ پورا مہر وصول کرنے کا مکمل حق رکھتی ہیں، کسی اور کے معاف کرنے سے شوہر کا ذمّہ فارغ نہیں ہوگا، بلکہ باقی مہر بدستور اس پر لازم رہے گا تاوقتیکہ وہ اسے ادا کردے یا آپ اپنی مرضی سے اسے معاف کردیں۔
اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس مرد کے ساتھ آپ کا نباہ نہیں ہوسکے گا اور آپ دونوں کی مستقبل کی زندگی برباد ہو جائے گی تو اس صورت میں آپ کو چاہیے کہ اپنی والدہ، ماموں اور خاندان کے دیگر بزرگوں کے سامنے اس بات کا اظہار کردیں، اس طرح ان کی مدد سے آپ کے لیے حتمی فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیۃ: 34)
وَ اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ۚ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاo

القرآن الکریم: (سورۃ النساء: رقم الآیۃ: 4)
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً O

تفسير القرطبي: (البقرة، الآیة: 27، 172/1، ط: دار الکتب العلمیة)
السابعة: في هذه الآية دليل على أن الوفاء بالعهد والتزامه وكل عهد جائز ألزمه المرء نفسه فلا يحل له نقضه سواء أكان بين مسلم أم غيره، لذم الله تعالى من نقض عهده. وقد قال:" أوفوا بالعقود" [المائدة: ١]

رد المحتار: (11/3، ط: دار الفكر)
قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah