resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بیوی کو پورے وثوق کے ساتھ تین طلاق کا یقین ہے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ قاضی کی طرح ہے (22555-No)

سوال: ایک مسئلے کے بارے میں آپ حضرات سے رہنمائی درکار ہے، میاں بیوی کے درمیان طلاق کے مسئلے میں اختلاف چل رہا ہے، شوہر کہہ رہا ہے کہ میں نے دو مرتبہ طلاق دی ہے اور بیوی کہہ رہی ہے کہ مجھے چھ مرتبہ طلاق کے الفاظ کہہ دیے گئے ہیں، دونوں ہی اپنی بات پہ قائم ہیں اور دونوں ہی قرآن پاک اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ بیوی کا کہنا ہے کہ میں نے چھ مرتبہ کے الفاظ سنے ہیں تو تین مہینے 10 دن کے بعد میری حیثیت ایک قاضی کی بن جائے گی اور میں خود اپنے آپ کو شریعت کے مطابق تین طلاق دے کر فارغ ہو جاؤں گی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا بیوی صحیح کہہ رہی ہے؟ کیا شریعت کے مطابق تین مہینے دس دن کے بعد اس کو طلاق ہو جائے گی حالانکہ شوہر کسی بھی طور پہ تیسری طلاق دینے کے لیے راضی نہیں ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ بیوی 6 طلاقوں کے ضمن میں پوری تین طلاقوں کی دعویدار ہے، جب کہ شوہر اس کا منکر ہے، شوہر کے بقول اس نے دو طلاقیں دی ہیں، لہٰذا اس صورت میں دو طلاقیں تو ضرور واقع ہوگئی ہیں۔
اس سے زائد طلاقوں میں چونکہ ان کے درمیان اختلاف ہے، اس لیے ان کو چاہیے کہ عدالت یا کسی مستند مفتی کے پاس پیش ہوں، وہاں پیش ہو کر عورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے، اگر اس کے پاس شرعی گواہ موجود ہوں تو بیوی کے دعوی کے مطابق فیصلہ کردیا جائے، لیکن اگر اس کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو شوہر سے تیسری طلاق نہ ہونے پر قسم لی جائے گی، اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کرتا ہے تب بھی بیوی کے قول کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا، لیکن اگر شوہر قسم کھا لیتا ہے تو ایسی صورت میں ظاہری فیصلہ شوہر کی رائے کے مطابق کردیا جائے گا، تاہم اگر بیوی کو پورے وثوق کے ساتھ تین طلاق کا یقین ہے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ قاضی کی طرح ہے، یعنی اس کا وثوق اور یقین خود اس کے حق میں معتبر ہوگا، لہٰذا اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے اختیار سے اس مرد کو اپنے اوپر قدرت نہ دے اور کسی طرح اس سے طلاق یا خلع لینے کی کوشش کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1342، ط: دار الغرب الإسلامي)
حدثنا ‌محمد بن سهل بن عسكر البغدادي، قال: حدثنا ‌محمد بن يوسف، قال: حدثنا ‌نافع بن عمر الجمحي ، عن ‌عبد الله بن أبي مليكة ، عن ‌ابن عباس «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى، أن ‌اليمين على ‌المدعى عليه»
هذا حديث حسن صحيح. والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم؛ أن ‌البينة على ‌المدعي واليمين على ‌المدعى عليه.

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية: (37/1، ط: دار المعرفة)
«وقال في الخانية لو قال أنت طالق أنت طالق أنت طالق وقال أردت به التكرار صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا. اه. ومثله في الأشباه والحدادي وزاد الزيلعي أن ‌المرأة ‌كالقاضي فلا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به لأنها لا تعلم إلا الظاهر. اه»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

biwi ko pore wasooq k sath teen talaq ka yaqeen hai too us k liye hokum ye hai k wo qazi ki tarha hai

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce