سوال:
مفتی صاحب! نکاحِ متعہ جائز ہے یا ناجائز؟ کیونکہ کچھ ممالک میں اس طرح کا نکاح ہورہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اسلام میں منع نہیں ہے، بلکہ یہ تو حضرت عمرؓ نے منع کیا تھا۔ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ دین اسلام میں کسی بھی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس ہے، کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی حلال چیز کو حرام قرار دیدے یا کسی حرام کو حلال کہے، قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ وارد ہوا ہے، سورۃ المائدۃ آیت نمبر 87 میں اللّٰہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے: "مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا" (المائدۃ: 87)
"متعہ" کے بارے میں تحقیقی اور صحیح بات یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عام تھا، اسلام کے ابتدائی دور میں اس کے بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی، لیکن پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور فتح مکہ کے موقع پر اپنی زبان مبارک سے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا، اسی پر تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے، متعہ کی حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی وجہ سے ہے، اس مضمون کی بہت سی صحیح حدیثیں صحاح ستہ میں مذکور ہیں، مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ سے منع کیا" (مسلم : حدیث نمبر: 1406)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حرمت متعہ کا حکم جاری ہونے کے بعد یہ مسئلہ اکثر صحابہ کے علم میں آچکا تھا، البتہ کچھ مسلمان ابھی تک اس حکم سے ناواقف تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں حکم سے ناواقفیت کی بنا پر متعہ کے کچھ واقعات پیش آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا اور آپ نے باقاعدہ سرکاری سطح پر اس شرعی حکم کی تشہیر کی اور لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حتمی طور پر قیامت تک کے لیے متعہ کو حرام قرار دیدیا ہے، اس لیے اب کوئی شخص اس میں مبتلاء نہ ہو۔
جن بعض روایات میں متعہ کے حرام کرنے کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر کے اعلان کی وجہ سے مسئلہ کا علم ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃ المائدۃ: رقم الآیة: 87)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ O
الصحیح لمسلم: (رقم الحدیث : 1406، ط: دار احیاء التراث العربی)
عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ۔
التعلیق الصبیح: (32/4، ط: مکتبه رشیدية)
وَقَوْلِ سَلَمَة رُخِّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَامُ أَوْطَاس فِي المتعة يَدُلُّ عَلَى تَقَدُّمِ النَّهْيِ،أَمَّا حَدِيثِ جَابِرٍ كُنَّا نَسْتَمْتِعُ فَإِنْ الْأَمْرَ فِيهِ مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّ النَّهْيَ لَمْ يَبْلُغْهُ إِلَى زَمَانِ عُمَر، وَتَأْوِيلُ قَوْلِهِ على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وَ أَبِي بَكْر اين نرى ذلك جائزا في زمان ابي بكر وَذَلِكَ غَيْرُ مُسْتَبْعَدٍ فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ مَعَ غَزَارَةِ عِلْمِهِ وَقدْمَةِ صُحْبَتِهِ وَمُدَاوَمَتِهِ خَفِيَ عَلَيْهِ نَسْخُ الطلْبيق، فَلَا تُنْكِرُ أَنْ يَكُونَ جَابِرٌ لَمْ يَعلم ذَلِكَ حَتَّى بَلَغَ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا كَانَ مِنْ عمرو بن حريث، فَأَغْلَظَ الْقَوْلَ وَرَأَى فيها الْعُقُوبَة وَأَعْلَمَ الْجَاهِلَ بِهَا ، حتى استفاد علم ذلك في الامة ونقله الاخر عن الاول وقد شهد بتحريمها جمع من الصحابة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی