سوال:
مفتی صاحب! زید چاہتا ہے کہ وہ اپنی ساری جائیداد ایک ٹرسٹ بنا کر اس میں منتقل (وقف) کر دے اور وہ ٹرسٹ اس کی بیٹی کے نام ہو، اس کی فیملی میں اس کی والدہ، اس کی بیوی اور اس کی بیٹی اور تین چھوٹے شادی شدہ بھائی ہیں جو الگ رہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری ساری جائیداد میری بیٹی کو مل جائے، کیا اس کا یہ عمل درست ہے اور اگر نہیں تو اس کا کیا شرعی حکم ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللّہ خیرا
تنقیح: محترم! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آپ ٹرسٹ کیوں بنانا چاہ رہے ہیں جبکہ ٹرسٹ میں رکھے گئے تمام اموال وقف کے حکم میں ہوتے ہیں اور وہ کسی کے ملکیت میں نہیں ہوتے؟ نیز کیا آپ اپنی بیٹی کو اس ٹرسٹ کا محض متولیہ و نگران بنانا چاہ رہے ہیں یا پھر اس کی ملکیت میں مال دینا چاہتے ہیں؟
جواب تنقیح:
ٹرسٹ کا مقصد اپنی وفات کے بعد اپنی اکلوتی بیٹی کو اپنی مکمل جائیداد کا وارث بنانا مقصود ہے۔
جواب: واضح رہے کہ شریعت نے ترکہ کے لیے ورثاء اور ان کے حصے مقرر کردیے ہیں، کوئی انسان ان ورثاء یا مقررہ حصوں میں اپنی مرضی سے کمی پیشی نہیں کرسکتا۔
لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں زید کا اپنے مرنے کے بعد باقی ورثاء کو محروم کرکے صرف ایک بیٹی کو تمام جائیداد دینے کے لیے یہ اقدام کرنا درست نہیں ہے۔
نیز واضح ہو کہ وقف کرنے کے بعد موقوفہ (وقف کی ہوئی) چیز واقف (وقف کرنے والے) کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، واقف کو اس میں مالکانہ تصرف کا اختیار نہیں رہتا ہے اور واقف کے انتقال کے بعد اس میں اس کی میراث بھی جاری نہیں ہوتی ہے۔
لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر زید اپنی جائیداد ٹرسٹ میں وقف کردے تو اس کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی، بلکہ ٹرسٹ کی ملکیت ہوکر رفاہی امور میں اس کا استعمال ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدۃ القاری: (229/23، ط: دار احیاء التراث العربی)
المواريث فرائض وفروضا لما أنها مقدرات لأصحابها ومبينات في كتاب الله تعالى ومقطوعات لا تجوز الزيادة عليها ولا النقصان منها.
الفقه الاسلامی وادلته: (الفصل الأول، تعریف علم المیراث، 7697/10، ط: دار الفکر)
"الإرث لغة: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. وفقهاً: ما خلفه الميت من الأموال والحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."
رد المحتار: (351/4، ط: دار الفکر)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه
الهندية: (350/2، ط: دار الفکر)
«أما تعريفه فهو في الشرع عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة على الفقراء أو على وجه من وجوه الخير بمنزلة العواري كذا في الكافي فلا يكون لازما وله أن يرجع ويبيع كذا في المضمرات ولا يلزم إلا بطريقتين إحداهما قضاء القاضي بلزومه والثاني أن يخرج مخرج الوصية فيقول أوصيت بغلة داري فحينئذ يلزم الوقف كذا في النهاية وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية»
الفقه الاسلامی وادلته: (7617/10، الباب الخامس الوقف، الفصل الثالث حکم الوقف، ط: وزارة الاوقاف الكويت)
" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی