سوال:
مفتی صاحب! کل میں ایک نکاح میں گیا تھا، وہاں میں نےمہر سے متعلق دو قسم کے الفاظ سنے، آدھا مہر معجل اور آدھا غیر معجل، براہ کرم آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مہر کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں اور ان میں ادائیگی کے اعتبار سے کیا فرق ہوتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شرعاً مہر کی دو قسمیں ہیں:
(1) مہرِ معجّل: مہر کی وہ قسم ہے جس کی ادائیگی نکاح کے فوراً بعد ذمہ میں واجب ہوتی ہے اور نکاح کے فوراً بعد بیوی کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے۔
(2) مہر مؤجّل: اس سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے کوئی مہلت یا میعاد مقرر کر دی جائے، اس صورت میں مقررہ مدت سے پہلے عورت کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے پورے مہر کو معجّل یا مؤجّل رکھنا یا بعض کو معجّل اور بعض کو مؤجّل رکھنا جائز ہے، لہذا دونوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ اگر مہر کے کچھ حصہ کا معجّل اور کچھ کا مؤجّل دینا طے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس صورت میں معجّل حصہ کے مطالبہ کا حق عورت کو فی الحال حاصل ہوگا، لیکن مؤجّل حصہ کے مطالبہ کا حق مدتِ مقررہ سے پہلے اس کو حاصل نہیں ہوگا، نیز مؤجّل غیر معیّن (ادائیگی کی مدت کی تعیین کے بغیر) کی صورت میں طلاق یا انتقال کی وجہ سے جدائی سے پہلے عورت کو مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (318/1، ط: دار الفكر)
ولو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع.
لاخلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لا يتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی