سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! زید نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو اگر فلاں کے گھر گئی تو تجھے طلاق ہے، بعد میں اس فلاں سے زید کی ناراضگی ختم ہوگئی، اب زید کی بیوی کے اس گھر میں جانے کی وجہ سے طلاق ہوگی یا نہیں ؟
جواب: طلاق جب کسی شرط کے ساتھ مشروط اور معلق کر دی جائے تو شرط واپس نہیں لی جاسکتی، شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
لہذا اگر ایک طلاق کو معلق کیا ہو، تو اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے،
بہر صورت ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوگا، ایک مرتبہ جانے کے بعد تعلیق ختم ہوجائے گی، پھر دوبارہ جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
اور اگر تین طلاقوں کو معلق کیا ہو تو تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دے کر چھوڑدے ، جب عدت پوری ہوجائے تو جس گھر میں جانے سے بیوی کو منع کیا ہے، اس گھر میں چلی جائے، پھر وہ شخص اپنی بیوی سے نکاح کرلے، اس تدبیر سے تعلیق ختم ہوجائے گی اور بیوی تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور آئندہ اس گھر جانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس کے بعد شوہر نئے مہر کے ساتھ نکاحِ جدید کرلے، تاہم آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدير: (437/10)
"وعرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق فدخلت وقع عليها ثلاث تطليقات".
الدر المختار مع رد المحتار: (357/3)
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها".
الھندیۃ: (420/1، ط: رشیدیہ)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی