عنوان: ایلاء کی تعریف، اقسام اور ان کا حکم(22623-No)

سوال: مفتی صاحب! جمعہ کے دن مولوی صاحب فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ نے کسی وجہ سے اپنی ازواج مطہراتؓ کے ساتھ ایلاء کیا تھا۔ مفتی صاحب مجھے اور کئی نمازیوں کو ایلاء کے بارے میں نہیں معلوم ہے، جمعہ کی نماز پڑھانے والے مولوی صاحب دوسرے ہیں، وہ نمازپڑھا کر چلے جاتے ہیں، براہ کرم اس سے متعلق شرعی احکام سے آگاہ فرمادیں۔

جواب: جواب: شریعت کی اصطلاح میں "ایلاء" یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے مطلقاً یا ہمیشہ کے لیے یا چار ماہ اور اس سے زیادہ مدت کے لیے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے (قاموس الفقه: 267/2) یا بیوی سے ہمبستری کرنے کی صورت میں اپنے اوپر کوئی ایسی چیز لازم کرلے جس کو ادا کرنے میں مشقت آتی ہو، جیسے بیوی سے صحبت کرنے پر اپنے اوپر روزہ یا حج وغیرہ لازم کرلے۔ ایسی قسم کھانے کو شریعت کی اصطلاح میں "ایلاء" کہتے ہیں۔
حکم کے اعتبار سے ایلاء کی دو قسمیں ہیں:
1) ایلاء مؤقّت: جس میں شوہر چار مہینے یا اس سے زیادہ متعین مدت تک مباشرت نہ کرنے کی قسم کھائے، جیسے یوں کہے کہ: "اللہ کی قسم! میں تجھ سے چار مہینے تک ہمبستری نہیں کروں گا"
اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس نے چار مہینے سے پہلے ہمبستری کرلی تو قسم توڑنے کی وجہ سے حانث ہوگا اور اس پر قسم کا کفّارہ لازم ہوگا، مگر اس کا نکاح برقرار رہے گا۔ اور اگر چار مہینے تک ہمبستری نہیں کی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور ایلاء بے اثر ہوجائے گا، اب اگر طلاق کے بعد پھر اسی مرد سے نکاح ہوگیا اور اس دوسرے نکاح کے بعد چار مہینے تک صحبت نہیں کی تو ایلاء کے بے اثر ہونے کی وجہ سے دوبارہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
2) ایلاء مؤبّد: جس میں شوہر ہمیشہ کے لیے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالے، جیسے یوں کہے کہ: "اللہ کی قسم! میں تجھ سے ہمیشہ یا کبھی ہمبستری نہیں کروں گا"
اس کا حکم یہ ہے کہ چار مہینے سے پہلے ہمبستری کرنے کی صورت میں قسم کا کفّارہ دینا ہوگا اور نکاح برقرار رہے گا، جبکہ چار مہینے تک ہمبستری نہ کرنے کی صورت میں ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اور نکاح ختم ہوجائے گا، لیکن ایلاء پھر بھی برقرار رہے گا، لہذا دوبارہ اسی مرد سے نکاح ہونے کی صورت میں اگر چار مہینے سے پہلے شوہر نے ہمبستری نہیں کی تو دوسری طلاق واقع ہوجائے گی، پھر اسی طرح اگر تیسری دفعہ اسی مرد سے نکاح کرے اور چار ماہ تک صحبت نہ کرے تو تیسری طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ تیسری طلاق کی عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے بعد طلاق ہوجائے یا اس دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس کی عدت گزار کر پہلے مرد سے نکاح کرلے اور شوہر چار ماہ تک صحبت نہ کرے تو اب طلاق واقع نہیں ہوگی۔
نوٹ: چار مہینے سے کم مدت تک بیوی سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھانے سے "شرعی ایلاء" واقع نہیں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

اللباب في شرح الكتاب: (ص: 276، ط: دار الكتاب العربي)
وهو لغة: الحلف مطلقاً. وشرعاً: الحلف على ترك قربان زوجته مدة مخصوصة، ۔۔۔۔۔۔ وحكمه، وقوع طلقة بائنة إن بر في حلفه، والكفارة والجزاء المعلق إن حنث، كما صرح بذلك بقوله (إذا قال الرجل لامرأته واللّه لا أقربك) أو (لا أجامعك) أو (لا أطؤك) أو (لا أغسل منك من جنابة) وكذا كل ما ينعقد به اليمين (أو) قال (لا أقربك أربعة أشهر) أو قال (إن قربتك فعلى حج أو عبدي حر، أو أنت طالق)؛ (فهو مول) لقوله تعالى {للذين يؤلون من نسائهم تربص أربعة أشهر} الآية۔ (فإن وطئها في الأربعة أشهر حنث في يمينه) لفعله المحلوف عليه (ولزمته الكفارة) في عقد اليمين والجزاء المعلق، أو الكفارة في التعليق على الصحيح الذي رجع إليه الإمام، كما في الشرنبلالية (وسقط الإيلاء) لانتهاء اليمين بالحنث (وإن لم يقربها حتى مضت أربعة أشهر بانت منه بتطليقة) ؛ لأنه ظلمها بمنع حقها، فجازاه الشرع بزوال نعمة النكاح عند مضي هذه المدة، وهو المأثور عن عثمان وعلي والعبادلة الثلاثة وزيد بن ثابت، رضي اللّه عنهم، وكفى بهم قدوة
(فإن كان حلف على) مدة الإيلاء فقط (أربعة أشهر فقد سقطت اليمين)؛ لأنها كانت موقنة بوقت ، فترتفع بمضيه (وإن كان حلف على الأبد فاليمين باقية) بعد البينونة؛ لعدم الحنث (فإن عاد) إليها (فتزوجها ثانياً عاد الإيلاء) ؛ لما مر أن زوال الملك بعد اليمين لا يبطلها، إلا أنه لا يتكرر الطلاق قبل التزوج؛ لعدم منع الحق بعد البينونة (فإن وطئها) حنث في يمينه و (لزمته الكفارة) وسقط الإيلاء؛ لأنه يرتفع بالحنث (وإلا) يطأها (وقعت بمضي أربعة أشهر) أخرى (تطليقة أخرى) أيضاً لأن بالتزوج ثبت حقها، فيتحقق الظلم، فيعتبر ابتداء هذا الإيلاء من وقت التزوج. هداية (فإن) عاد إليها و (تزوجها) ثالثاً (عاد الإيلاء ووقع بمضي أربعة أشهر) أخرى (تطليقة أخرى)؛ لبقاء ‌طلاق ‌ذلك ‌الملك ‌ببقاء ‌المحلية (فإن) عاد إليها و (تزوجها) رابعا (بعد) حلها بتزوج (زوج آخر لم يقع بذلك الإيلاء طلاق) ؛ لزوال طلاق ذلك الملك بزوال المحلية (و) لكن (اليمين باقية) لعدم الحنث (وإن وطئها كفر عن يمينه) لوجود الحنث. ( وإن حلف على أقل من أربعة أشهر لم يكن مولياً)

البحر الرائق: (71/4، ط: دارالكتاب الاسلامي)
(قوله وإن حلف بحج أو صوم أو عتق أو صدقة أو طلاق أو آلى من المطلقة الرجعية فهو مول) هذا شروع في القسم الثاني من الإيلاء، وهو الإيلاء المعنوي،وهو اليمين بتعليق ما يستشقه على القربان كإن قربتك فلله علي حج

الفتاوى الهندية: (476/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر۔


البحر الرائق: (4 / 65، ط: دارالكتاب الاسلامي)
وهو لغة اليمين، وشرعا قوله (هو الحلف على ترك قربانها أربعة أشهر أو أكثر) أي الزوجة

بدائع الصنائع: (3/ 179، ط: دارالكتب العلمية)
ولو كان الإيلاء مؤقتا إلى وقت معلوم أربعة أشهر أو أكثر فمضت المدة من غير فيء حتى وقع الطلاق لا يبقى الإيلاء، وينتهي حتى لو قربها لا كفارة عليه. ولو لم يقربها حتى مضت أربعة أشهر لا يقع عليها شيء؛ لأن المؤقت إلى وقت ينتهي عند وجود الوقت.

الدر المختار: (3/ 422، ط: دارالفکر)
( هو ) لغة اليمين شرعا ( الحلف على ترك قربانها ) مدته ولو ذميا ( والمولى هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء ) مشق ( يلزمه ) إلا لمانع كفر وركنه الحلف…… ( وحكمه وقوع طلقة بائنة إن بر ) ولم يطأ ( و ) لزم ( الكفارة أو الجزاء ) الم ( إن حنث ) بالقربان ( و المدة ( أقلها للحرة أربعة أشهر وللأمة شهران ) ولا حد لأكثرها فلا إيلاء بحلفه على أقل من الأقلين ….. ( فإن قربها في المدة ) ولو مجنونا ( حنث ) وحينئذ ( ففي الحلف بالله وجبت الكفارة وفي غيره وجب الجزاء وسقط الإيلاء ) لانتهاء اليمين ( وإلا ) يقربها ( بانت بواحدة ) بمضيها ….. (وسقط الحلف لو) كان ( مؤقتا ) ولو بمدتين إذ بمضي الثانية تبين بثانية وسقط الإيلاء ( لا لو كان مؤبدا ) وكانت طاهرة كما مر وفرع عليه ( فلو نكحها ثانيا وثالثا ومضت المدتان بلاء ) أي قربان ( بانت بأخريين ) والمدة من وقت التزوج..

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Print Full Screen Views: 13 Jan 13, 2025

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2025.