resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حج بدل میں کون سے خرچے دینا لازم ہیں؟ (22683-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک صاحب کو حجِ بدل کے لیے بھیج رہے ہیں تو کیا ان کے سفر کا خرچہ اور قربانی کے پیسے دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے؟ اور کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچ جانے والے پیسے ہمیں واپس کردیں؟

جواب: حج بدل میں حج سے متعلق تمام ضروری اخراجات حج کروانے والے کے ذمہ ہیں، لہٰذا آنے جانے کا خرچ، سفر کے زمانے میں قیام و طعام یعنی کھانے پینے اور ہوٹل وغیرہ میں رہنے کے اخراجات، ضروری برتن اور اشیائے ضرورت کی خریداری وغیرہ کے اخراجات اس میں شامل ہیں۔
تاہم قربانی کا خرچ حج کرانے والے کے ذمہ لازم نہیں، اس لیے حج بدل کے لیے جانے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ حج افراد (یعنی صرف حج) کا احرام باندھے، جس میں حج کی قربانی لازم نہیں ہوتی، البتہ بھیجنے والوں کی اجازت سے حج تمتع اور قران بھی کرسکتا ہے، مگر قربانی خود اپنے مال سے کرنی ہوگی، البتہ اگر بھیجنے والے اپنی خوشی سے قربانی کی رقم بھی ادا کردیں تو یہ جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهندية: (1/ 257، ط: دار الفكر)
(ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله........... المأمور بالحج ينفق من مال الآمر ذاهبا وجائيا كذا في السراجية.

الدر المختار مع رد المحتار: (2/ 610، ط: دار الفكر)
«(ودم الإحصار) لا غير (على الآمر في ماله ولو ميتا) قيل من الثلث، وقيل من الكل. ثم إن فاته لتقصير منه ضمن، وإن بآفة سماوية لا.
(ودم القران) والتمتع (والجناية على الحاج) إن أذن له الآمر بالقران والتمتع وإلا فيصير مخالفا فيضمن»
قوله لا غير) أي لا غير دم الإحصار من باقي الدماء الثلاثة، وهو دم الشكر في القران والتمتع ودم الجناية.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah