سوال:
السلام علیکم، پوچھنا یہ تھا کہ اسٹیٹ ایجنسی کا کام حلال ہے یا حرام؟ ایک ساتھی کہہ رہے تھے کہ جس کاروبار میں آپ کا پیسہ شامل نہ ہو، وہ حرام ہے۔
جواب: واضح رہے جس طرح مالی سرمایہ لگا کر کاروبار کرنا جائز ہے، اسی طرح کسی جائز کام میں اپنی سروسز(خدمات) فراہم کر کے اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے، لہذا اسٹیٹ ایجنسی (یعنی جائیداد و زمین کی خریدوفروخت) کا کام کرنا جائز ہے، اور اس پر کمیشن (اجرت) لینا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
۱- جس کام کے عوض کمیشن لیا جا رہا ہو، وہ کام فی نفسہ جائز ہو۔
۲- وہ کام بھی متعین ہو۔
۳- ایجنٹ اپنی خدمات واقعی صرف بھی کرے۔
۴- کمیشن لینے والا وہ جائیداد اپنے لیے خرید و فروخت نہ کر رہا ہو۔
۵- کمیشن (اجرت) جانبین کے درمیان باہمی رضامندی کے ساتھ، بلا کسی ابہام کے پہلے سے طے ہونی چاہیے(خواہ وہ متعین مقدار کی صورت میں ہو یا فیصدی تناسب کی صورت میں)۔
مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے "اسٹیٹ ایجنسی" کا کاروبار کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الإجارۃ الفاسدة، 47/6، ط: دار الفکر)
نقلاً عن البزازیۃ: "إجارۃ السمسار والمنادي والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر الماخوذ لو قدر أجر المثل_.
الهندية: (الفصل الرابع في فساد الإجارۃ)
"وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیہ أن من کل عشرۃ دنانیر کذا فذٰلک حرام علیہم، کذا في الذخیرۃ".
المبسوط للسرخسي: (باب السمسار، 115/15، ط: دار الفکر)
إمداد الفتاویٰ: (366/3)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی