سوال:
مفتی صاحب ! اللہ تعالیٰ شانہ کی ذات عالی سے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، عرض یہ ہے کہ ایک لڑکی شوہر سے ناراض ہو کر میکے آگئی اور خلع کا دعویٰ کردیا، پھر اس کے حق میں یکطرفہ خلع کا فیصلہ کردیا، اب سوال یہ ہے کہ اس کی عدت کب سے شروع ہوگی؟ جبکہ اسے میکے آئے ہوئے پانچ ماہ ہوچکے ہیں، وہ پڑھتی بھی ہے اور ملازمت بھی کرتی ہے۔ جواب مرحمت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر خلع شوہر نے تسلیم کرلیاتھا تو فیصلہ کے ساتھ ہی مذکورہ خاتون کی عدت شروع ہوچکی ہے اور مکمل تین ماہواریاں بطورِ عدت گزارنا ان پر لازم ہوگا، البتہ اگر ان کے شوہر نے خلع تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ یک طرفہ طور پر خلع کا فیصلہ دیا گیا تھا تو اس صورت میں مذکورہ خلع شرعاً نافذ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے مذکورہ خاتون بدستور اپنے شوہر کے ہی نکاح میں ہیں اور ان پر عدت لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 229)
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ شَیۡئًا اِلَّاۤ اَنۡ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا فِیۡمَا افۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَo
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الھندیۃ: (526/1، ط: دار الفکر)
هي انتظار مدة معلومة يلزم المرأة بعد زوال النكاح حقيقة أو شبهة المتأكد بالدخول أو الموت كذا في شرح النقاية للبرجندي. رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی