سوال:
مفتی صاحب! سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر ہوئی ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہاتھ کے پوروں پر تسبیحات پڑھا کرتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔ جزاک اللہ خیراً
جواب: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تسبیح کا شمار اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت یسیرہ بنت یاسر رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے عورتوں کی جماعت! تم تسبیحات کا شمار انگلیوں کے پوروں سے کر لیا کرو، کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کی جائے گی"۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3486)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نہ صرف یہ کہ از خود تسبیحات کا شمار ہاتھ کی انگلیوں پر فرمایا کرتے تھے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے، اس لیے تسبیحات ہاتھ کی انگلیوں پر گننا مستحب ہے، خواہ ہر انگلی یا ہر پورے پر ایک تسبیح گنے یا پورے کے دونوں اطراف کو دو مرتبہ شمار کرے، اس کے لیے کوئی بھی طریقہ بسہولت اختیار کیا جاسکتا ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کے لیے کسی خاص طریقہ کار کی پابندی مذکور نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت (یعنی ہر پورے پر دو مرتبہ تسبیح پڑھنا اور انگلی کے سرے کو الگ سے شمار کرنا) بھی اس کے لیے اختیار کرنا درست ہے، لیکن چونکہ خاص اس طریقہ سے انگلیوں پر پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے مروی نہیں ہے، اس لیے اس طریقہ کار کو "حضور اکرم ﷺ کے تسبیح پڑھنے کا طریقہ" عنوان دینا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 3486)
حدثنا محمد بن عبد الاعلى بصري، حدثنا عثام بن علي، عن الاعمش، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم " يعقد التسبيح بيده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث الاعمش، عن عطاء بن السائب، وروى شعبة، والثوري هذا الحديث عن عطاء بن السائب بطوله، وفي الباب، عن يسيرة بنت ياسر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا معشر النساء، اعقدن بالانامل فإنهن مسئولات مستنطقات ".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (1605/4، ط: دار الفكر)
واعقدن) : بكسر القاف أي: اعددن عدد مرات التسبيح وما عطف عليه (بالأنامل) أي: بعقدها أو برءوسها يقال: عقد الشيء بالأنامل عده، وقول ابن حجر: أي عدهن، أو التقدير: اعددن. لا وجه للفرق بينهما.... والظاهر أن يراد بها الأصابع من باب إطلاق البعض وإرادة الكل عكس ما ورد في قوله تعالى: {يجعلون أصابعهم في آذانهم} [البقرة: 19] لمبالغة.
الدر المختار مع رد المحتار: (650/1، ط: دار الفكر)
(و) كره تنزيها (عد الآي والسور والتسبيح باليد في الصلاة مطلقا) ولو نفلا، أما خارجها فلا يكره كعده بقلبه أو بغمزه أنامله، وعليه يحمل ما جاء من صلاة التسبيح.
(قوله باليد) أي بأصابعه أو بسبحة يمسكها كما في البحر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی