سوال:
ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، چاروں بھائیوں نے والد کی مکمل جائیداد آپس میں تقسیم کرلی اور بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دیا، کچھ سال گزرنے کے بعد ایک بھائی کو احساس ہوا اور وہ اب اپنی بہنوں کو اپنے اس مال میں جو اس کو وراثت میں ملا تھا، اس میں سے حصہ دینا چاہتا ہے، دیگر بھائی نہیں دے رہے۔ اب اس کا کیا طریقہ کار ہوگا ؟ آیا وہ اپنا مکمل شرعی حصہ جو اس کا بنتا ہے وہ رکھ کر بقیہ اپنی بہنوں میں برابر تقسیم کردے یا کوئی اور طریقہ کار ہوگا؟
جواب: صورت مذکورہ میں آپ کو چاہیے کہ آپ کے پاس جتنا حصہ زیادہ بن رہا ہے، وہ بہنوں میں شرعی تناسب سے تقسیم کردیں، اور باقی تینوں بھائیوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی زائد حصہ بہنوں میں شرعی تناسب سے تقسیم کر دیں، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآية: 29)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».
و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة».
بدائع الصنائع: (کتاب القسمۃ، فصل فی صفات القسمۃ، 26/7)
وأما صفات القسمۃ فأنواع منہا أن تکون القسمۃ عادلۃ غیر جائرۃ وہی الی ان قال فإذا وقعت جائرۃ لم یوجد التراضی ولا إفراز نصیبہ بکمالہ لبقاء الشرکۃ فی البعض فلم تجز وتعاد۔وعلی ہذا إذا ظہر الغلط فی القسمۃ المبادلۃ بالبینۃ أو بالإقرار تستأنف لأنہ ظہر أنہ لم یستوف حقہ فظہر أن معنی القسمۃ لم یتحقق بکمالہ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی